آیات 3 - 6
 

وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾

۳۔ اور نہ ہی تم اس (اللہ) کی بندگی کرتے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔

وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور نہ ہی میں ان (بتوں) کی پرستش کرنے والا ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔

وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾

۵۔ اور نہ ہی تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿۶﴾

۶۔ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔

تفسیر آیات

ان آیات میں کافروں کی طرف سے دین کے بارے میں سمجھوتے کی تجویز مسترد کی ہے۔ اس تجویز کو پرزور الفاظ میں مکرراً مسترد کر کے اس خیال کو ذہنوں سے دور کر دیا کہ توحید کے بارے میں کسی قسم کا سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہے۔ قرآن مجید میں بعض مقامات پر آیات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں۔ ہر ایک تکرار اپنی جگہ ایک حسن رکھتی ہے۔

پھر ان آیات میں صرف آیت ۳ اور پانچ میں عین الفاظ کی تکرار ہے باقی آیات میں عین الفاظ کے ساتھ تکرار نہیں ہے۔

آیت نمبر ۲ میں لَاۤ اَعۡبُدُ ، آیت نمبر ۴ میں وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ اور آیت نمبر۲ میں مَا تَعۡبُدُوۡنَ ہے۔ آیت نمبر ۴ میں مَّا عَبَدۡتُّمۡ ہے۔

یعنی آیت ۲ میں فرمایا: میں تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کرتا۔ جب کہ آیت ۴ میں فرمایا: میں عبادت کرنے والا ہی نہیں ہوں۔ آیت ۲ میں اس عمل کی نفی کی اور آیت ۴ میں اس عمل کے صادر ہونے کے امکان کی نفی ہے کہ میں کرنے والا نہیں ہوں۔

آیت ۲ میں مَا تَعۡبُدُوۡنَ ہے جب کہ آیت ۴ عَبَدۡتُّمۡ ہے۔ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو یا کرو گے ان کی اور جن کی عبادت تم کر چکے ہو ان کی میں عبادت نہیں کروں گا۔

روایت میں اس تکرار کی ایک وجہ بیان فرمائی گئی ہے:

تفسیر قمی میں ہے: ابو شاکر (امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کے زندیق) نے ابو جعفر الاحول (مومن طاق) سے پوچھا: سورہ کافرون میں جس نہج پر تکرار ہے اس کا کوئی سمجھدار انسان مرتکب نہیں ہو سکتا۔ ابو جعفر کوئی جواب نہ دے سکے۔ مدینہ آ کر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس تکرار کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:

قریش والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تجویز دی تھی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں، ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ پھر ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں، ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے جس پر یہ سورۃ قریش کی تکرار کے ساتھ نازل ہوئی۔

ان لوگوں نے کہا: آپ ایک سال ہمارے معبودوں کی عبادت کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ نے کہا: قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۔ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔ میں ان معبودوں کو نہیں پوجتا جنہیں تم پوجتے ہوں۔

ان لوگوں نے کہا: ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ نہ ہی تم اس (اللہ) کی بندگی کرنے والے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔

ان لوگوں نے کہا: پھر ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کریں گے تو اللہ نے جواب میں فرمایا: وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ نہ ہی میں ان معبودوں کی پرستش کرنے والا ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔

ان لوگوں نے کہا: پھر ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ اس کے جواب میں فرمایا: وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۔ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۔ نہ ہی تم عبادت کرنے والے ہو اس ذات کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین۔

ابوجعفر احول نے ابو شاکر سے یہ جواب بیان کیا تو ابو شاکر نے کہا:

ھذا ما حملہ الابل من الحجاز۔

یہ وہ بار ہے جو اونٹ حجاز سے لے کر آئے ہیں۔

اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تیری طرف سے نہیں ہے، امام صادق علیہ السلام کی طرف سے ہے۔

۶۔ لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ: اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے کسی صورت میں ہمارے معبود کی بندگی نہیں کرنی تو تمہارے لیے تمہارا دین ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارے لیے تمہارا دین ٹھیک ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تمہارے دین سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ جب حق کی طرف نہیں آنا ہے تو تم اپنے باطل پر قائم رہو، ہم اپنے حق پر قائم رہتے ہیں۔ لہٰذا لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ کا مطلب مشرکین کے دین کا اعتراف نہیں ہے۔


آیات 3 - 6