آیت 31
 

وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّیۡ مَلَکٌ وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ لَنۡ یُّؤۡتِیَہُمُ اللّٰہُ خَیۡرًا ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۚۖ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور میں تم سے نہ تو یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں بھلائی سے نہیں نوازے گا، ان کے دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں تو میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔

تشریح کلمات

تَزۡدَرِیۡۤ:

( ر ز ی ) کے معنی کسی پر عیب لگانے کے ہیں اور اذریت بہ اذدریت کے معنی ہیں کسی کو حقیر اور بے وقعت گرداننا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ: منکرین کا تیسرا شبہ یہ تھا کہ تم کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کے جاہلی معیار کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے کہ نہ میرے پاس اللہ کے خزانوں کی کنجیاں ہیں کہ جسے چاہوں دولت سے مالا مال کروں ، نہ کاہنوں کی طرح غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میں نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ میں انسان ہوں۔ کھاتا، پیتا، چلتا پھرتا ہوں۔

رسول کا کام انسان کی ہدایت و رہبری اور اللہ کی طرف سے دستور حیات دینا ہے مگر جاہل طرز فکر کے مطابق رسول کو مافوق البشر، خزانوں کا مالک اور غیب داں ہونا چاہیے۔

۲۔ وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ : نوح علیہ السلام کے زمانے میں موجود طبقاتی تفاوت کا اس جملے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان اہل ایمان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو معاشرے کے نچلے درجے کے لوگ سمجھتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے بارے میں اپنا یہ موقف پیش کیا کہ میں ان اہل ایمان کو صرف غریب ہونے کی بنیاد پر اپنے سے دور نہیں کر سکتا۔ اس جملے میں ان کی فضیلت اور مقام کے بارے میں فرمایا:

۳۔ نۡ یُّؤۡتِیَہُمُ اللّٰہُ خَیۡرًا: جن کو تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں ، عین ممکن ہے کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کو نوازے کیونکہ الٰہی معیارفضیلت انسانوں کی باطنی طہارت و قلبی پاکیزگی ہے اور اللہ ان لوگوں کے باطن سے خوب واقف ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ ان کو بھلائی سے نہیں نوازے گا۔

۴۔ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ: اگر میں ان ایمان والوں کے بارے میں یہ بات کہوں کہ ایمان کے باوجود اللہ ان کو کسی بھلائی سے نہیں نوازے گا،یہ ایسا موقف ہو گا جو اللہ کے موقف کے خلاف ہے۔ اس قسم کا موقف اختیار کرنا ظلم اور ناانصافی ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو اس کی درونی حالت سے فضیلت مل جاتی ہے: اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔۔

۲۔ مادی اعتبار سے طبقاتی تفاوت ظلم ہے: اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ۔


آیت 31