آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الکوثر

اس سورۃ المبارکہ کا نام الۡکَوۡثَرَ (خیر کثیر) کا لفظ پہلی آیت میں مذکور ہونے کی مناسبت سے مقرر ہوا۔

یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے اور شان نزول بھی اس پر شاہد ہے۔ اس کی آیات تین ہیں۔ یہ قرآن کی مختصر ترین اور ساتھ جامع ترین سورہ ہے۔

اس سورۃ المبارکہ میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک اہم ترین خوشخبری ہے اور ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تکمیل اور تا قیامت باقی رہنے کی ضمانت کا اعلان ہے۔ وہ ہے الکوثر (خیر کثیر) کی عنایت۔ یہ خیر کثیر جناب سیدۃ نسآء العالمین سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی پر منطبق ہے اور آج دین مبین اسلام کی بقا جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کی قربانیوں کی وجہ سے ہے اور جو کچھ اس وقت دامن اسلام میں موجود ہے وہ اولاد زہراء سلام اللہ علیہا کے مرہون منت ہے۔ شاء الناس او ابوا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾

۱۔ بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔

سبب نزول

اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ سورۃ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر، لاولد کہتے تھے۔

واقعہ یہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرینہ اولاد میں سے حضرت قاسم علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ علیہ السلام کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس پر کفار قریش نے خوشیاں منانا شروع کر دیں۔

جب حضورؐ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو ابو لہب دوڑتا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خبر خوشی کے ساتھ سنائی:

بتر محمد اللیلۃ۔

آج رات محمد لا ولد ہو گئے۔

ابن عباس کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کے دوسرے فرزند حضرت عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی باتیں کی تھیں۔ اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نے بھی اسی قسم کی خوشیاں منانے کا مظاہرہ کیا تھا۔ عاص بن وائل نے ایسے موقع پر کہا تھا:

ان محمد ابتر لا ولد لہ یقوم مقامہ بعدہ فاذا مات انقطع ذکرہ استرحتم عنہ۔

محمد ابتر ہیں۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کی جگہ پر کرے۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو ان کانام مٹ جائے گا اور تمہیں اس سے چھٹکارا ملے گا۔

اس موضوع پر روایات اس کثرت سے ہیں کہ کوئی منصف اس بات میں شک نہیں کرے گا کہ یہ سورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر یعنی لا ولد کہنے والوں کی رد میں نازل ہوئی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر فخررازی۔ تفسیر قرطبی۔ تفسیر روح المعانی و دیگر اہم تفاسیر۔

البتہ بعض جن لوگوں کے لیے اہل بیت علیہم السلام کی کوئی بھی فضیلت قابل ہضم نہیں ہے وہ اس روایت کو بتر عن قومہ محمد اپنی قوم سے کٹ گیا ہے کے معنوں میں لینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جو ان کثیر روایات کے مقابلے میں قابل اعتنا نہیں ہے اور سیاق آیت بھی اس رائے کی نفی کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ کوثر: فوعل کے وزن پر ہے جو کسی چیز کی انتہائی کثرت بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں جو چیز تعداد یا مقدار میں کثیر ہو اسے کوثر کہتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ ناقل ہے کہ کسی نے ایک بوڑھی عورت سے، جس کا بیٹا سفر سے واپس آیا تھا، پوچھا: آپ کا بیٹا کیا لے کر آیا ہے؟ اس عورت کہا: آب بکوثر۔ (تفسیر قرطبی ۲۱: ۲۱۶) بہت سارا مال لے کر آیا ہے۔

۲۔ خیر کثیر: کوثر کے لغوی معنی جب انتہائی کثرت کے ہیں تو ذہنوں میں سوال آتا ہے، کس چیز کی انتہائی کثرت؟ اس کا جواب ابن عباس دیتے ہیں کہ کثیر سے مراد خیر کثیر ہے۔ اس روایت کو بخاری، ابن جریر اور حاکم نیشاپوری نے ابوبشر سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ابو بشیر نے سعید بن جبیر سے کہا: لوگ کہتے ہیں کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے؟ کہا جنت کی نہر خیر کثیر میں شامل ہے۔ یہی جواب ابن عباس سے بھی منقول ہے۔

صاحب تفسیر روح المعانی خیر کثیر بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اس سے معلوم ہوتا ہے جن صحیح روایات میں کوثر کی تفسیر نہر سے کی گئی ہے وہ من باب التمثیل ہے۔ یعنی مثال کے طور پر نہر کا ذکر آیا ہے۔ جب صحیح روایات سے ثابت ہے کہ کوثر کی تفسیر خیر کثیر ہے بلکہ یہ تفسیر تواتر کی حد تک ہے تو دوسری تفسیر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا دیگر تمام اقوال من باب المثال ہیں۔

خیر کثیر کا مصداق

جب یہ سورہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر لاولد کہنے والوں کی رد میں نازل ہوئی ہے اور کوثر کا مطلب خیر کثیر ہے تو اس خیر کثیر کے مصداق کا تعین اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ’’آپ کا دشمن بے اولاد رہے گا‘‘ سے ہوتا ہے۔ تیرا دشمن لاولد ہے ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے۔ یعنی آپ کو اولاد کثیر عطا کی ہے یا خیر کثیر عطا کیا ہے جس کا مصداق اولاد کثیر ہے۔ اگر کوثر سے مراد اولاد کثیر نہیں ہے تو اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ کاکوئی مفہوم نہیں رہتا جیسا کہ صاحب تفسیر المیزان نے کہا ہے۔ اس جگہ مولف تفہیم القرآن نے لکھا ہے:

۔۔۔ اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بتائی جا رہی تھی جو ایسے ایک شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی تھیں۔ جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مختصر ترین سورہ کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری دی جس سے بڑی خوش خبری کسی انسان کو نہیں دی گئی اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔

فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: تیسرا قول یہ ہے:

الۡکَوۡثَرَ سے مراد آپؐ کی اولاد ہے۔ کہتے ہیں یہ سورہ چونکہ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نرینہ اولاد نہ ہونے پر طعنہ دیتے تھے۔ پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی نسل عنایت فرمائے گا جو ہمیشہ باقی رہے۔ دیکھئے! اہل بیت کے کتنے افراد مارے گئے پھر دنیا ان سے پر ہے اور بنی امیہ کا کوئی قابل ذکر باقی نہیں رہا۔ پھر یہ بھی دیکھ لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل میں کتنی بڑی ہستیاں عالم ہیں جیسے الباقر، الصادق، الکاظم اور الرضا علیہم السلام (لفظ علیہم السلام فخر رازی کی عبارت میں نفس زکیہ کے ذکر سے پہلے موجود ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فخر رازی حفظ مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے ائمہ کو علیہم السلام کے لائق سمجھتے ہیں۔) و النفس الزکیۃ۔ (تفسیر کبیر ۳۲: ۳۱۳)

صاحب تفہیم القرآن فضائل اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہمیشہ تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس جگہ چند الفاظ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکرکے بعد ضمنی طور پر لکھتے ہیں:

اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولاد نرینہ سے محروم ہونے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روش کرنے والی ہے، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے آپ کو وہ جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ افتخار ہی حضورؐ کا انتساب ہے۔

تفسیر محاسن التاویل ۹:۵۵۵ میں لکھا ہے:

جو کچھ ہم نے اس سورہ کے شان نزول میں لکھا ہے۔ اسی لیے امام اللغۃ ابن جنی اس بات کے قائل ہو گئے کہ کوثر کی تاویل ذریت کثیرہ ہے اور یہ بات نہایت خوبصورت بات ہے اور سبب نزول سورہ کے ساتھ مناسبت بھی رکھتی ہے۔ ابن جنی نے شرح دیوان المتنبی میں ۔۔۔۔ لکھا ہے: ابو الفضل نے جو کچھ مجھے لکھایا ہے اس میں یہ بات بھی تھی: قریش اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن یہ کہتے تھے محمد ابتر ہو گئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ جب یہ فوت ہو جائیں گے تو ہمیں اس سے چھٹکارا مل جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا: اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ اور کثیر تعداد سے مراد ذریت ہے اور وہ اولاد فاطمہ ہے۔

عروضی کہتے ہیں:

اگر کوئی یہ کہے اولاد بیٹوں اور باپ ماں کی ہوتی ہے تو میں کہوں گا: یہ بات اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ۔۔۔۔ الی قولہ وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی۔۔۔۔ (۶ انعام۔۸۴۔ ۸۵) اس آیت میں عیسیٰ کو ابراہیم علیہما السلام کی اولاد قرار دیا ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے باپ نہیں ہیں۔

۱۔ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ: اس آیت میں لفظ اِنَّاۤ عظمت پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب اپنے مقام کبریائی کے مطابق کوئی اہمیت کا حامل کام انجام دیتا ہے تو اپنی کبریائی کے مقام سے بات کرتا ہے اور اِنَّاۤ کی تعبیر اختیار فرماتا ہے جیسے:

اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ﴿﴾ (۵۴ قمر: ۴۹)

ہم نے ہر چیز کو ایک انداز کے مطابق پیدا کیا ہے۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا۔۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۲۴)

ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۰۵)

(اے رسول) ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۴۵)

ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے۔

لہٰذا اس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ایسی عظیم القدر نعمت عطا فرما رہا ہے جو اس کی شان کبریائی کے شایان شان ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا میں صرف گیارہ ائمہ ان میں ایک ہستی مہدی آخرالزمان عجل اللہ فرجہ دنیا کی تمام قابل تصور نعمتوں سے بڑی نعمت ہیں۔

۲۔ اَعۡطَیۡنٰکَ: لفظ عطا اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں عطا شدہ چیز کو مالک بنانا ہو۔ ممکن ہے اس جگہ یہ بتانا مقصود ہو یہ کوثر ایک ایسا عطیہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔


آیت 1