آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ التکاثر

اس سورۃ المبارکہ کا نام پہلی آیت میں لفظ التَّکَاثُرُ مذکور ہونے کی مناسبت سے موسوم ہوا۔

یہ سورۃ اکثر کے نزدیک مکی ہے لیکن اس کے شان نزول کے بارے میں بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مدنی ہے۔

سورۃ المبارکہ کا مضمون ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں دنیا میں مال و زر کی کثرت طلبی نے اصل مقصد زندگی سے غافل کر دیا ہے۔

بخاری نے ابی بن کعب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم اس عبارت کو قرآن سمجھتے تھے:

ان لابن آدم وادیین من مال لتمنی وادیا ثالثا و لا یملأ جوف ابن آدم الا التراب۔

ابن آدم کے پاس دو وادیاں مال سے پر ہوں تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا۔ آدم کا پیٹ صرف مٹی سے بھرے گا۔

حالانکہ اسلوب کلام اور آہنگ سخن خود بتلا رہا ہے کہ یہ کلام خالق نہیں ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے،

حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ یہاں تک کہ تم قبروں کے پاس تک جا پہنچے ہو۔

تفسیر آیات

روایت ہے دو قبیلے افراد و اموال کی کثرت پر ایک دوسرے کے ساتھ فخر و مباہات کرتے یہاں تک کہ اپنے افراد کی تعداد زیادہ دکھانے کے لیے اموات کی قبروں تک کو شمار کرتے تھے۔ کہتے ہیں یہ تفاخر مکہ کے قریش کے دو قبیلوں میں ہوا تھا۔

۱۔ اَلۡہٰکُمُ: تمہیں اپنے نفوس و افراد پر فخر و مباہات نے اصل مقصد حیات سے دور اور غافل کر دیا ہے۔ تم اپنی اموات سے عبرت لینے کی جگہ ان کی قبروں سے فخر کرتے ہو۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے: تم ایک دوسرے کے ساتھ اپنی کثرت پر فخر کرتے ہو یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ جاؤ۔ یعنی مرتے دم تک فخر کرتے ہو لیکن پہلی تفسیر زیادہ قرین واقع نظر آتی ہے چونکہ زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ سے دفنتم فی المقابر مراد لینا سیاق سے دور ہے۔


آیات 1 - 2