آیات 1 - 5
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ العادیات

اس سورۃ کا نام پہلی آیت میں مذکور وَ الۡعٰدِیٰتِ سے ماخوذ ہے۔

اس سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ شان نزول میں وارد روایت کے مطابق یہ سورۃ مدنی ہے۔ شان نزول کے بارے میں روایت ہے کہ یہ سورۃ غزوۃ ذات السلاسل کے موقع پر نازل ہوئی۔ یہ غزوہ سنہ سات(۷) ہجری وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جنگ میں گھوڑوں کی مختلف کیفیتوں سے قسم کھانے سے بھی یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسلامی جنگوں میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے جنگیں مدنی زندگی میں ہوئی ہیں۔

سورۃ کی ابتدائی پانچ آیات میں جنگی ترانے کا آہنگ ہے۔ ملاحظہ ہو:

قسم ہے ان گھوڑوں کی جو

ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں

پھر اپنی ٹھوکروں سے چنگاریاں اڑاتے ہیں

پھر صبح سویرے دھاوا بولتے ہیں

پھر اس سے غبار اڑاتے ہیں

پھر انبوہ لشکر میں گھس جاتے ہیں

ان گھوڑوں کی مختلف حالتوں کی قسم! یہ انسان اللہ کے رسولؐ کی آمد کو نعمت عظمی سمجھنے کی جگہ ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ ھکذا قیل فی الربط بین القسم وجوابہ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے ان (گھوڑوں) کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں،

فَالۡمُوۡرِیٰتِ قَدۡحًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پھر (اپنی) ٹھوکروں سے چنگاریاں اڑاتے ہیں،

فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ پھر صبح سویرے دھاوا بولتے ہیں،

فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ پھر اس سے غبار اڑاتے ہیں،

فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا ۙ﴿۵﴾

۵۔ پھر انبوہ (لشکر) میں گھس جاتے ہیں،

تشریح کلمات

الۡعٰدِیٰتِ:

( ع د و ) الۡعَدُوُّ: دوڑنے کے معنوں میں ہے۔

ضَبۡحًا:

( خ ب ح ) دوڑنے والے گھوڑوں کے ہانپنے کے معنوں میں ہے۔

الموریات:

( م و ر ) تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑانے کے معنوں میں ہے۔

قَدۡحًا:

( ق د ح ) چنگاری کے معنوں میں ہے۔

نَقۡعًا:

( ن ق ع ) غبار کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مجمع البیان میں آیا ہے کہ یہ آیات غزوۃ ذات السلاسل کے بارے میں نازل ہوئیں۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو روانہ فرمایا اور وہ فاتحانہ واپس آئے۔ بعض اہل تحقیق کا موقف یہ ہے کہ یہ آیات کسی واقعہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئیں، غزوۃ ذات السلاسل پر تطبیق ہوتی ہیں۔

وَ الۡعٰدِیٰتِ: یہ جہاد میں ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کے بارے میں ہے یا حج میں دوڑنے والے اونٹوں کے بارے میں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ان آیات میں حج کے دوران سواری کے لیے استعمال ہونے والے اونٹ مراد ہیں۔

لیکن چونکہ سیاق آیات اونٹوں پر صادق نہیں آتا اس لیے محققین نے اس روایت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ کہتے ہیں ہانپتے ہوئے دوڑنا، ٹھوکروں سے چنگاریاں اڑانا اور غبار اڑانا گھوڑوں کے دوڑنے سے وجود میں آتا ہے، اونٹوں سے نہیں۔ پھر جنگوں میں بیشتر گھوڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اگرچہ جنگ بدر میں ایک یا دو گھوڑے تھے تاہم دیگر جنگوں میں گھوڑوں سے کام لیا جاتا تھا۔

قسم ہے ان گھوڑوں یا اونٹوں کی جو راہ خدا میں (حج ہو یا جہاد) ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں۔

۲۔ فَالۡمُوۡرِیٰتِ: پتھروں پر ٹھوکر لگنے سے چنگاریاں اڑاتے ہیں یا پتھریلی زمین پر اونٹوں کے دوڑنے کی وجہ سے پتھروں کے آپس میں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتی ہیں۔ اگرچہ اونٹوں کے دوڑنے سے چنگاریاں نکلنا بعید سا معلوم ہوتا ہے لہٰذا گھوڑے مراد لینا قرین واقع معلوم ہوتا ہے۔

۳۔ فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا: صبح سویرے دھاوا بولنے والے گھوڑوں کی قسم۔ العین میں آیا ہے: المغیرۃ خیل قد اغارت۔ المغیرہ ان گھوڑوں کو کہتے ہیں جو چھاپہ مارتے، حملہ کرتے ہیں۔

۴۔ فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا: بِہٖ اس عَدْو دوڑ کی وجہ سے غبار اڑاتے ہیں۔ الاثارۃ اٹھانے اور اڑانے کو کہتے ہیں۔ جہاد میں گھوڑوں کے دوڑنے سے غبار اٹھتے ہیں اور اونٹوں کا قافلہ چلنے سے بھی بعض جگہوں پر غبار اڑتے ہیں۔

۵۔ فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا: بِہٖ کی ضمیر دوڑنے عَدْو کی طرف ہے۔ یعنی اس دوڑ سے یہ گھوڑے انبوہ میں گھس جاتے ہیں۔ وسطن درمیان میں پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی یہ گھوڑے قلب لشکر میں یا اونٹوں کے انبوہ کے درمیان پہنچ جاتے ہیں۔ مؤلف قاموس قرآن لکھتے ہیں: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانچ آیتیں جنگی ترانہ ہیں۔

گھوڑوں یا اونٹوں کی قسم کھانے سے ضمناً معلوم ہوا کہ مقدس جہاد یا مقدس عبادت میں استعمال ہونے والے اوزار اور وسائل کو بھی تقدس مل جاتا ہے، نہ ہر اونٹ اور ہر گھوڑے کو۔


آیات 1 - 5