آیات 7 - 8
 

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾

۷۔ پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾

۸۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔

تفسیر آیات

جب انسان کے تمام اعمال محفوظ ہوں گے تو عمل کے چھوٹے بڑے ہونے میں کوئی فرق نہ ہو گا۔ اس آیت سے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گناہ کو چھوٹا تصور نہ کیا جائے اور نیکی کو غیر اہم شمار نہ کیا جائے۔ ایک عمل عام انسانی پیمانے میں بے وزن ہو گا مگر اللہ کے نزدیک اس کا بڑا وزن ہو سکتا ہے اور گناہ کرتے ہوئے یہ نہ دیکھو کہ گناہ چھوٹا ہے بلکہ یہ دیکھو کس کی نافرمانی ہو رہی ہے۔

روایت ہے صعصعہ بن ناجیہ، جو فرزدوق شاعر اہل بیت کی جد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؐ نے انہیں کچھ نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔ جب اس نے یہ آیت سنی فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ تو اس نے کہا میرے لیے تو بس یہی ایک آیت کافی ہے۔ چنانچہ اس آیت کو آیت جامعۃ بھی کہا جاتا ہے۔

اس آیت پر یہ سوال نہیں آتا کہ توبہ، مغفرت، شفاعت اور حبط اعمال کا کیا مطلب ہے؟ چونکہ جب کسی کا گناہ معاف ہو گیا ہو گا تو وہ عمل دکھایا جائے گا جس کی وجہ سے اس کا عمل معاف ہوا ہے۔ مثلاً توبہ کی ہے۔ توبہ ایک عمل ہے۔ یہ دکھایا جائے گا جس نے گناہوں کے اثرات ختم کیے ہیں۔

اگر کسی کا عمل حبط ہو گیا ہے تو وہ کسی برے عمل کی وجہ سے حبط ہوا ہو گا تو وہ برا عمل دکھایا جائے گا جس نے عمل کو حبط کیا ہے۔ مثلاً قرآن میں یہ حکم آیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿﴾ (۴۹ حجرات: ۲)

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

یہاں جس نے نبی کی آواز سے بلند آواز میں بات کی ہے اسے دکھایا جائے گا جس نے اس کی ساری نیکیاں برباد کر دیں۔


آیات 7 - 8