آیات 99 - 100
 

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَجۡعَلُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیں پلیدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ: اگر اللہ چاہتا تو تمام اہل ارض کو مؤمن بنا کر خلق فرماتا، فرشتوں کی طرح ان میں صرف ایمان کی یکطرفہ صلاحیت ودیعت فرماتا اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے کفر کی قدرت سلب کر دیتا کہ وہ مؤمن ہی رہیں۔ اگر ہم ایسا چاہتے تو انسان کو کفر و ایمان کے درمیان کھڑا نہ کرتے اور ان دونوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کی قوت اور صلاحیت اس کو نہ دیتے بلکہ یہ صلاحیت ہم اپنے پاس رکھتے۔ اس صورت میں وہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتا۔ اس قسم کا جبری ایمان ہم کو منظور نہیں ہے۔

۲۔ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ: اللہ نے جب نہیں چاہا کہ سب لوگ بالجبر ایمان میں داخل ہو جائیں تو کیا آپؐ جبر و اکراہ کے ذریعے لوگوں کو مؤمن بنائیں گے؟ اول تو ایسا نہیں ہے۔ اگر ہوا تو ایسا ایمان اللہ کو قبول نہیں ہے۔

۳۔ وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ: البتہ یہ انسان فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا (۹۱ شمس: ۸) بدکرداری اور تقویٰ اور اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا (۷۶ انسان: ۳) شکر و کفر میں سے ایک کو خود مختارانہ طور پر ترجیح دیتا ہے۔ اگرچہ ترجیح اس کا اپنا عمل ہو گا تاہم اللہ کی طرف سے فراہم شدہ اسباب و علل کے ذریعے ہی وہ ایمان و کفر، خیر و شر، تقویٰ اور فجور میں سے ایک کا انتخاب کرے گا۔ اللہ اس کو عقل دیتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ہدایت و رہنمائی فراہم ہوتی ہے۔ یہی اذن خدا ہے اور یہی خود مختاری ہے اور یہی امر بین اَمرین ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرۃ آیت ۲۵۵۔

۴۔ وَ یَجۡعَلُ الرِّجۡسَ: ایمان کے مقابلے میں رجس کا ذکر ہوا ہے جو عدم ایمان یعنی شک ہے۔ ایمان نہ لانا عقل کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہو گا۔ لَا یَعۡقِلُوۡنَ وہ لوگ ہیں جو عقل کو بروئے کار نہیں لاتے۔

حضرت ابی جعفر علیہ السلام سے روایت ہے:

الرجس ہو الشک ولا نشک فی دیننا ابداً ۔ (بصائر الدرجات: ۲۰۶)

رجس سے مراد شک ہے اور ہم اپنے دین میں کبھی شک نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ انسان مجبور بھی نہیں ، اذن خدا بھی چاہیے: تُکۡرِہُ النَّاسَ۔۔۔اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ انسان خود مختار ہے اور محتاج بھی ہے۔


آیات 99 - 100