آیات 62 - 64
 

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾

۶۲۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾

۶۳۔ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔

لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾

۶۴۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں آ سکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے خاص بندوں کا ذکر فرماتا ہے تو پورے اہتمام کے ساتھ پہلے توجہ مبذول کراتا ہے: اَلَاۤ سنو! آگاہ رہو! اس کے بعد مضمون شروع ہو جاتا ہے۔

۲۔ اولیائے خدا کو نہ کوئی خوف لاحق ہو گا، نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ ولی الولاء والتوالی کے اصل معنی بقول راغب اصفہانی یہ ہیں: دو یا دو سے زیادہ چیزوں کا اس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو ان میں سے نہ ہو۔ آگے لکھتے ہیں : الوِلایۃ (بکسر واؤ) کے معنی تصرف، اور الوَلایۃ (بفتح واؤ) کے معنی کسی کا متولی ہونے کے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق ولی کا اصل معنی تولیت و حاکمیت ہے، پھربطور استعارہ دیگر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ رسول اور امام جب لوگوں کے ولی ہوتے ہیں تو تولیت و حاکمیت کے معنوں میں ہوتا ہے: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۵۵)

جب کوئی ہستی اللہ کی ولی بن جاتی ہے تو ولایت کے چند ایک آثاراور اللہ کے ولی کے لیے چند باتیں اس آیہ شریفہ میں ثابت فرمائی ہیں :

۱۔ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ: انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا۔ یہاں لَا خَوۡفٌ مطلق ذکر ہوا ہے۔ اس لیے دنیاوی و اخروی دونوں شامل ہے۔ اللہ کے ولی کے دل میں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں آداب بندگی میں خلل نہ آئے۔ کہیں کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اپنے حقیقی محبوب ذات باری تعالیٰ کے لیے پسند نہ ہو۔ یہ خوف ولی اللہ کو جہاں تمام گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے، وہاں دوسرے تمام خوف سے نجات دلاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

یٰمُوۡسٰی لَا تَخَفۡ ۟ اِنِّیۡ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ (۲۷ نمل:۱۰)

اے موسیٰ! ڈریے نہیں ، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے۔

اولیاء اللہ وہ ہوتے ہیں جو غیر خدا سے نہیں ڈرتے۔ وہ کیوں ڈریں۔ ان کی ساری زندگی اپنے محبوب کے لیے ہے اور اگر یہ زندگی چلی جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کی بارگاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا ولی اللہ موت سے بھی نہیں ڈرتے:

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿﴾ (۶۲ جمعة: ۶)

کہدیجیے: اے یہودیت اختیار کرنے والو! اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو دوسرے لوگ نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

ولی اللہ عاشق خدا ہوتا ہے اور اپنے رب کی ملاقات کا اشتیاق رکھتا ہے۔ ولی اللہ اس اشتیاق کے تحت لقائے رب کی منزل پانے پر کہہ اٹھتا ہے:

فزت وربّ الکعبۃ ۔ ( امیرالمؤمنین علیہ السلام۔ بحار الانوار ۲۰: ۱۴۷)

رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔

۲۔ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ: وہ رنجیدہ اورغمگین نہیں ہوتے۔ ولی اللہ کو کوئی مادی اور دنیاوی بات رنجیدہ نہیں کرسکتی۔ وہ رنجیدہ کیوں ہو کیونکہ وہ تو ہمیشہ اپنے آپ کو کامیاب دیکھتا ہے۔ اس کی زندگی کی متاع

رضائے رب ہے۔ ولی اللہ کا نعرہ ہوتا ہے:

ما ذا وجد من فقدک و ما الذی فقد من وجدک ۔۔۔۔ ( حضرت امام حسین علیہ السلام۔ دعائے عرفہ۔ بحار الانوار ۹۵: ۲۲۶)

اے اللہ جس نے تجھے کھویا اس نے کیا پایا اور جس نے تجھے پایا اس نے کیا کھویا۔

ولی اللہ اپنی زندگی میں اللہ کو پانے کے بعد کچھ بھی نہیں کھو دیتا تو وہ رنجیدہ کس بات کے لیے ہو۔ آخرت میں بھی کوئی رنج نہیں ہو گا۔ یہ تو واضح ہے محب کو محبوب کے پاس کوئی حزن و ملال نہیں ہوا کرتا:

فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ۔۔۔ ( ۳ آل عمران: ۱۷۰)

اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں۔۔۔۔

۳۔ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: یہ اولیاء اللہ ایمان کے ایک خاص درجہ پر فائز ہیں ، ورنہ وہ ایمان جو کبھی شرک کے ساتھ آلودہ رہا ہو، انسان کو مقام ولایت پر فائز نہیں کر سکتا۔ ایمان کے اس خاص رتبہ پر فائز ہونے کے بعد انسان اپنے آپ کو کاملاً اللہ کے حوالہ کر دیتا ہے اور اللہ ہی کو کل کا مالک مان لیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو کسی چیز کا حتیٰ اپنی جان کا بھی مالک نہیں سمجھتا تو جب وہ مالک ہے نہیں تو کیا کھوئے گا؟ جب کوئی چیز کھو نہیں دیتا تو حزن و خوف کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

۴۔ وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ: ماضی استمراری کے ساتھ تعبیر یہ بتاتی ہے کہ وہ تقویٰ کو ایمان کے تمام مراحل میں اپنا شعار بناتے ہیں۔

۵۔ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی: دنیا و آخرت ددنوں میں ان کے لیے بشارت ہو گی۔ دنیا میں بشارت کا مطلب یہ ہو گا کہ انہیں کامیابی کی خوشخبری دی جاتی ہے اور آخرت میں ثواب و رضائے رب کی صورت میں ہو گی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مؤمن کی روح جب سینے تک پہنچ جاتی ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا ہے اور آپؐ فرماتے ہیں :میں رسول اللہ ہوں۔ تجھے بشارت ہو۔ پھر فرمایا: علی بن ابی طالب ؑکو دیکھے گا اورآپؑ فرمائیں گے: میں علی بن ابی طالب ہوں جس سے تو محبت کرتا تھا۔ آج تیرے کام آؤں گا۔ ( الکافی ۳: ۳۳ باب ما یعابن المؤمن و الکافر )

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی حضرت ابو بصیر راوی ہیں :

میرا ایک ہمسایہ حکومت وقت کا حامی تھا۔ اس کے پاس وافر دولت آگئی۔ وہ مئے نوشی کی محفلیں جماتا تھا جس سے مجھے بڑی اذیت ہوتی تھی۔ میں نے کئی بار خود اس سے شکایت کی لیکن وہ باز نہ آیا اور ان باتوں کا اس پر اثر نہ ہوا۔ ایک دن اس نے کہا:

میں تو اس گندگی میں مبتلا ہوں آپ سالم ہیں۔ اگر آپ اپنے صاحب (مولا) سے میرا تعارف کراتے تو ممکن ہے آپ کے ذریعے اللہ مجھے بچا لیتا۔ اس بات کا مجھ پر اثر ہوا۔ جب میں حضرت ابو عبد اللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے اس شخص کا حال بیان کیا۔ آپ ؑنے فرمایا:

جب کوفہ واپس جاؤ تو وہ تمہارے پاس آئے گا۔ اس سے کہنا کہ جعفر بن محمد علیہما السلام کہتے ہیں جس چیز کا تو ارتکاب کر رہا ہے اس کو ترک کر دو۔ میں اللہ کے حضور تیرے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں۔

جب میں کوفہ واپس آیا تو دیگر آنے والوں میں یہ بھی میرے پاس آیا۔ میں نے اسے روک رکھا۔ جب خلوت ہوئی تو میں نے اس سے کہا:

میں نے جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے تیرا ذکر کیا تھا تو آپ ؑنے فرمایا: جب کوفہ واپس جاؤ تو وہ تمہارے پاس آئے گا۔ اس سے کہنا جعفر بن محمد علیہما السلام کہتے ہیں کہ جس چیز کا تو ارتکاب کر رہا ہے اسے ترک کرو۔ میں اللہ کے حضور تیرے لیے جنت کا ضامن بنوں گا۔

یہ سن کر وہ رویا اور پوچھا: بخدا کیا ابو عبداللہ نے فرمایا ہے؟

میں نے قسم کھائی ایسا ہی فرمایا ہے۔ اس نے کہا: بس کافی ہے اور چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد اس نے مجھے بلایا۔ دیکھتا ہوں وہ اپنے گھر کے عقب میں عریاں بیٹھا ہے اور کہا:

اے ابوبصیر! گھر میں کچھ نہ رہا۔ میں نے سب کچھ نکال دیا اور میرا یہ حال ہو گیا۔

ابوبصیر کہتے ہیں :

میں نے دوستوں سے کچھ کپڑے جمع کر کے اسے پہنائے۔ ابھی چند دن گزرے تھے کہ اس نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں مریض ہو گیا ہوں۔ میں اس کا معالجہ کراتا رہا یہاں تک اس کی موت نزدیک آگئی۔ حالت نزع میں اس کے پاس بیٹھا تھا۔ اس پر غشی طاری ہو گئی۔ ہوش میں آکر کہنے لگا:

اے ابو بصیر قد وفی صاحبک لنا ۔ آپ کے صاحب (مولا) نے میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ پھر اس کی روح پرواز کر گئی۔

حج کے موقع پر میں نے حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اجازت طلب کی۔ میں ابھی آپ ؑگھر میں داخل ہو رہا تھا۔ میرا ایک پاؤں صحن میں اور دوسرا پاؤں دروازے کی چوکھٹ پر تھا۔ آپ ؑنے فرمایا:

اے ابو بصیر! قد وفینا لصاحبک ہم نے تیرے ساتھی کے ساتھ وعدہ پورا کر دیا۔ ( الکافی۱: ۴۷۴ باب مولد ابی عبد اللّٰہ جعفر بن محمد ع )

’’دنیا کی زندگی میں بشارت‘‘ کے سلسلے میں یہ واقعہ نہایت درس آموز ہے۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ الکافی ۵: ۱۰۶ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۶۔ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ: مذکورہ اوصاف کے حامل لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت دینے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حتمی فیصلوں میں سے ہے۔ اس میں کسی قسم کا تغیر اور تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

۷۔ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ: ابدی کامیابی سے بڑھ کر اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ جس کے دل میں غیر خدا کا خوف ہو وہ مقام ولایت پر فائز نہیں ہو سکتا۔

۲۔ ولی خدا دنیا سے اپنی کامیابی کی بشارت لے کر جاتا ہے: لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔


آیات 62 - 64