آیت 21
 

وَ اِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَۃً مِّنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُمۡ اِذَا لَہُمۡ مَّکۡرٌ فِیۡۤ اٰیَاتِنَا ؕ قُلِ اللّٰہُ اَسۡرَعُ مَکۡرًا ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَکۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡکُرُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں، کہدیجئے: اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیز ہے، بیشک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں۔

تفسیر آیات

جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ اللہ کی نعمتوں پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ اللہ نے اگر انہیں کسی مصیبت سے نجات دلا دی تو وہ اس کی دوسری توجیہیں کرتے ہیں۔ اس میں اللہ کی مشیت و ارادے کی نفی کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں : قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ (۷ اعراف: ۹۵) اس قسم کی تنگی اور راحت سے تو ہمارے باپ دادا بھی دو چار رہے ہیں۔ یہ طبیعت کا کھیل ہے قدرت کا کرشمہ نہیں۔ جو لوگ اللہ کی رحمتوں کو تسلیم کرنے کی جگہ اس کی مادی توجیہ کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے سامنے معجزہ رکھا جائے تو بھی وہ اس کی کوئی اور توجیہ کریں گے۔ جیسا کہ آج کل کے مغرب زدہ اور شکست خوردہ ذہنوں نے معجزات انبیاء ؑ کی مادی توجیہ کرنا شروع کر دی ہے۔

منکرین کی حیلہ بازیوں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر پر تو وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ اللہ کے فرشتے ان کی حیلہ بازیوں کو صفحہ کائنات پر ضبط تحریر لا رہے ہیں اور ان کے لیے فرار کا کوئی راستہ نہیں چھو ڑا گیا۔

اہم نکات

۱۔ تعیش سے انسان کا روحانی پہلو کمزور اور مادی پہلو غالب آجاتا ہے: اِذَا لَہُمۡ مَّکۡرٌ فِیۡۤ اٰیَاتِنَا

۲۔ ایمان باللہ کا لازمہ اللہ کی رحمتوں کا اقرار ہے۔


آیت 21