آیت 6
 

اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مَا لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّکُمۡ وَ اَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَیۡہِمۡ مِّدۡرَارًا ۪ وَّ جَعَلۡنَا الۡاَنۡہٰرَ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمۡ فَاَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ وَ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو نابود کر دیا جنہیں ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو ہم نے تمہیں نہیں دیا؟ اور ہم نے ان پر آسمان سے موسلادھار بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں جاری کر دیں پھر ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔

تشریح کلمات

قَرۡنٍ:

( ق ر ن ) ایک زمانے کے لوگوں یا امت کو کہتے ہیں۔

مِّدۡرَارًا:

( د ر ر ) صیغہ مبالغہ ہے۔ بہت برسنے والا یہ دَرٌ سے ہے، جو دودھ کے معنوں میں ہے۔ بارش کے لیے استعارۃً استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَرَوۡا: یہاں بھی مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو نہایت تکبر و نخوت سے اہل اسلام کی توہین کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں اہل اسلام نہایت فقر و تنگ دستی اور بے بسی کے عالم میں تھے۔ اللہ تعالیٰ یہاں سرکش قوموں کی عبرتناک تاریخ سے اہل اسلام کو نوید اور مشرکین کو ان کے انجام کی خبر سنا رہا ہے اور تاریخ کی مقتدر اقوام کے ساتھ ایک تقابل بھی ہے۔

۲۔ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وہ سرکش جو اپنے گناہوں کی وجہ سے نابود ہو گئے، وہ تم سے زیادہ مقتدر تھے اور مال و دولت کی فراوانی میں بھی تم سے بہت آگے تھے۔

۳۔ وَ اَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ وہ تمہاری طرح خشک اور بے آب و زرع سرزمین میں نہیں، سرسبز و شاداب اور نہروں والے باغات میں ہوتے تھے۔ چنانچہ نمرود و فرعون کا تو ان مکہ والوں کے ساتھ کوئی تقابل نہیں ہے، بلکہ قوم ثمود بھی ان سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تمدن کی مالک تھی۔

۴۔ مَا لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّکُمۡ ان کے مقابلے میں مکہ والوں کی حیثیت کا اندازہ خطبۂ زھراء سلام اللہ علیہا کے ان جملوں سے ہوتا ہے، جن میں آپ (س) مکہ والوں کی ذلت آمیز زندگی کی تصویر پیش فرماتی ہیں:

وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ (۳:۱۰۳)

اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے

مذقۃ الشارب

تم (اپنے دشمنوں کے مقابلے میں) پینے والے کے لیے گھونٹ بھر پانی،

و نھزۃ الطامع

ایک تر نوالہ،

و قبسۃ العجلان

تیز چنگاری

و موطیٔ الاقدام

اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک تھے۔

تُشربون الطرق و تقتاتون الورق اذلۃً خاسئین

تم بدبو دار کیچڑ والے پانی سے پیاس بجھاتے تھے اور گھاس پھونس سے بھوک مٹاتے تھے۔ تم اس طرح ذلت و خواری کی زندگی بسر کرتے تھے۔

تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ من حولکم

تمہیں ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا آس پاس کے لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں۔

فانقذکم اللہ تبارک و تعالی بمحمّد صلی اللہ علیہ و آلہ ۔ (بحار الانوار ۲۹: ۲۲۳)

ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے ذریعے نجات دی ۔

اہم نکات

۱۔ سرکشی کا انجام نابودی و ہلاکت ہے۔

۲۔ وقتی خوشحالی اور مال و دولت کی فراوانی آزمائش ہے۔ اس سے غلط فہمی نہ ہو کہ یورپ ناز و نعمت میں ہے۔


آیت 6