آیت 2
 

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس ہے، پھر بھی تم تردد میں مبتلا ہو۔

تفسیر آیات

خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ انسانی جسم کی تخلیق میں زمینی اجزاء استعمال ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی ایسا عنصر نہیں ہے جو غیر ارضی ہو۔ لہٰذا انسان ایک ارضی اور خاکی مخلوق ہے۔

ثُمَّ قَضٰۤی : یہاں دو مدتوں کا ذکر ہے:

۱۔ اَجَلًا یہ وہ مدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے، لیکن اس فیصلے کو مبہم رکھا ہے، چونکہ یہ مدت اللہ تعالیٰ کی لوح محو و اثبات سے مربوط ہے۔ اس کا تعلق انسان کے اعمال و کردار سے ہے۔ مثلاً احادیث کے مطابق درازی عمر کے لیے درج ذیل عوامل مؤثر ہیں:

i۔ صلہ رحم۔ الکافی ۲: ۱۵۷ ۔ باب صلۃ الرحم

ii صدقہ۔ الکافی ۴: ۲ ۔ باب فضل الصدقۃ

iii۔ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر الکوثر جلد ۱ صفحہ ۴۹۸۔

iv۔ نیکی (البر) مستدرک الوسائل ۵: ۱۷۷

v۔ زیارۃ قبر الحسین علیہ السلام۔ الوسائل ۱۴: ۴۱۳

۲۔ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی مقررہ مدت ۔ اسے اجل محتوم قطعی، ناقابل تغیر اجل کہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی اس سنت اور قانون سے متعلق ہے، جس میں تبدیلی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے: وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۔(۳۳ احزاب: ۶۲)

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی رہنمائی کے مطابق انسانی زندگی کو دو قسم کے عوامل کا سامنا ہے: طبیعی اور غیر طبیعی۔ انسان بھی ایک مشینری ہے، جو طبیعی حالات میں ایک معین مدت تک کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کا

انحصار مشینری بنانے والے پر ہے لیکن کسی حادثے کی صورت میں اس مشینری کی زندگی مختصر بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا دار و مدار حالات پر ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کو اللہ نے طبیعی اعتبار سے، مثلاً ایک سو چالیس (۱۴۰) سال زندہ رہنے کے لیے بنایا ہے، اس کے بعد اسے حتمی طور پر مرنا ہے، جسے اجل مسمیٰ کہا گیا اور اجل محتوم بھی اور اسے طبیعی موت بھی کہتے ہیں لیکن کسی غیر طبیعی علل و اسباب کی وجہ سے انسان کی عمر مختصر بھی ہو جاتی ہے۔ یہ مدت غیر معین ہے چونکہ اس کا دار و مدار حالا ت پر ہے۔ اس کی موت کو غیر حتمی اور اجل غیر مسمیٰ کہیں گے۔ یہ دونوں مدتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ صرف یہ کہ حتمی اجل فیصلہ کن اور ناقابل تغیر ہے، جب کہ غیر حتمی، قابل تغیر ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ دونوں مدتوں کا تعین علم خدا میں ہے لیکن علم خدا کے باوجود طبیعی تقاضے اپنی جگہ قابل تغیر ہیں۔ انسان کی عمر ایک حتمی ہے اور ایک غیر حتمی۔ غیر حتمی عمر کا بھی اللہ کو علم ہے کہ یہ انسان اپنے اختیار اور پوری خود مختاری سے کون سی مضر صحت چیزوں کا استعمال کرے گا، جس سے اس کی موت جلدی واقع ہو جائے گی، جب کہ اللہ نے اس کے لیے جو طبیعی موت مقرر کی تھی، اس کی مدت اس سے زیادہ تھی۔

۳۔تمام مشرک قوموں کی ردمیں فرمایا: زمین کا دیوتا اور آسمان کا دیوتا الگ الگ نہیں ہے، بلکہ آسمان اور زمین پر ایک ہی اللہ کی حکمرانی ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ھما اجلان اجل موقوف یصنع اللہ ما یشاء و اجل محتوم۔ (بحار الانوار ۴: ۱۱۶ باب ۳۔ البداء و النسخ۔ المیزان ۷: ۱۴)

اجل دو ہیں: ایک مشروط اجل۔ جس میں اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ دوسری حتمی اجل ہے۔

اہم نکات

۱۔نور اور ظلمت کا ایک ہی خالق ہے۔ مجوسیت کی رد۔

۲۔انسانی جسم کی تخلیق میں ارضی عناصر استعمال ہوئے ہیں اور انسان کو خاک سے پیدا کیا گیا ہے۔

۳۔انسان کے لیے جہاں ایک حتمی موت مقرر ہے: ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ، وہاں ایک غیر حتمی موت بھی ہے، جو انسان کے اپنے کردار سے مربوط ہے: وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ۔۔۔۔

۴۔آسمانوں اور زمین میں ایک ہی خدا کی حکمرانی ہے، متعدد خداؤں کی نہیں۔


آیت 2