آیت 5
 

وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾

۵۔ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

تفسیر آیات

عطائے رب کا دنیوی وعدہ تو پورا ہوتے ہوئے چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ اس وقت کرۂ ارض پر اسلام کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور نظام و دستور حیات کے اعتبار سے تمام ادیان پر فوقیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض غیر مسلم مفکرین کو یہ کہنا پڑا ہے کہ اہل ارض کے مستقبل کا دین، اسلام ہو گا۔

اور آخرت میں شفاعت ہے کہ آپ کو شفاعت کی اس حد تک اجازت دی جائے گی کہ آپ راضی ہو جائیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے ہاں گئے تو دیکھا آپ اونٹ کے بالوں کی چادر زیب تن کیے ہوئے چکی سے آٹا پیس رہی ہیں (بعض روایات میں ہے) ساتھ بچے کو دودھ پلا رہی ہیں۔ یہ دیکھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آئے پھر فرمایا:

یا بنتاہ تعجلی مرارۃ الدنیا بحلاوۃ الاخرۃ فقد انزل اللہ علیَّ وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی۔۔۔ (مکارم الاخلاق: ۱۱۷)

اے بیٹی دنیا کی تلخی کو آخرت کی شیرینی کی خاطر برداشت کرو۔ مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی۔

محمد بن حنفیہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اشفع لٔامتی حتی ینادی ربی رضیت یا محمد؟ فاقول: رب رضیت۔۔۔ (شواہد التنزیل ۲: ۴۴۶)

میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا یہاں تک میرے رب کی طرف سے ندا آئے گی: یا محمد! کیا آپ راضی ہو گئے؟ میں کہوں گا میرے رب! میں راضی ہو گیا۔

اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کے دن تمام انبیاء علیہم السلام پر مقدم کیا جائے گا ۔آپؐ کی امت کو تمام امتوں پر مقدم کیا جائے گا اور آپ کی امت کے مومنین کے درجات بلند ہوں گے اور دیگر عزت و تکریم، جس کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔


آیت 5