آیات 27 - 30
 

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ﴿٭ۖ۲۷﴾

۲۷۔ اے نفس مطمئنہ!

ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾

۲۸ ۔ اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔

فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا۔

وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا ۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا ہے اس نفس کے لیے جو ایمان و ایقان کی اس منزل پر فائز ہے جہاں دنیا میں شک کے اضطراب سے محفوظ اور مطمئن اور آخرت میں خوف و حزن سے محفوظ اور مطمئن ہے۔ جس نے عبودیت کا راز سمجھ لیا اور نفس کی معرفت حاصل کی تو اسے رب کی معرفت حاصل ہوئی۔ پھر نفس مطمئن ہو گیا۔ جس نے راز خلقت سمجھ لیا، پھر خالق کی رضا جوئی کے لیے تڑپ گیا، اسے رضائے رب ملنے پر اطمینان حاصل ہو گیا:

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿﴾ (۱۳ رعد: ۲۸)

اور یاد رکھو! یاد خداسے دلوں کو اطمینان ملتا ہے

۲۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ: یہاں حکم ہے رب کی طرف رجوع کرنے کا۔ یعنی دنیا کی زندگی ترک کر کے اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرنے اور اللہ کی ضیافت میں آنے کا۔ رجوع کی دو قسمیں ہیں: رجوع اضطراری اور رجوع اختیاری۔ رجوع اضطراری کے تحت کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ۔ (۲۱ انبیاء: ۳۵) ہر شخص کو قہراً اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔

رجوع اختیاری شہداء کی موت ہے جو اپنے اختیار سے جان، جان آفرین کے سپرد کرتے ہیں۔

آیت میں ارۡجِعِیۡۤ پلٹ آ کا حکم تکوینی ہے۔ یہ حکم موت کے وقت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک پر محیط ہے۔ چونکہ اِلٰی رَبِّکِ سے مراد الی رحمۃ ربک ہے اور ہر مرحلے میں رحمت الٰہی اس کے شامل ہو گی۔

۳۔ رَاضِیَۃً: وہ دنیا میں اللہ کے ہر فیصلے پر راضی تھا۔ اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع تھی۔ عندالموت اللہ کی طرف جانے پر راضی ہے۔ بعد الموت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر راضی ہے۔

۴۔ مَّرۡضِیَّۃً: اللہ اس سے راضی ہے۔ اللہ کی رضایت کا حصول اس کا بنیادی سرمایہ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا: وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۷۲) اللہ کی خوشنودی ایسی نعمت ہے جو وصف و بیان سے بڑھ کر ہے۔

۵۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ: جن لوگوں نے بندگی کا حق ادا کیا ہے اور عبودیت کی معراج پر فائز ہوئے ہیں ان میں شامل ہو جا۔ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہاں عِبٰدِيْسے مراد عباد صالحین ہیں۔

۶۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ: ’’میری جنت‘‘ فرما کر اس جنت کی شان واضح فرمائی جس میں داخل ہونے کا حکم ہے۔

مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا:

کیا مومن قبض روح کو ناپسند کرتا ہے؟

فرمایا: قسم بخدا! نہیں۔ جب ملک الموت قبض روح کے لیے آتا ہے تو مومن پریشان ہو جاتا ہے۔ ملک الموت اس سے کہیں گا: اے ولی خدا! گھبراؤ نہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے میں تجھ پر احسان اور شفقت میں مہربان باپ سے زیادہ ہوں۔ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیرالمومنین فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام اور ان کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام کو حاضر دیکھے گا۔ اس سے کہا جائے گا: یہ پاکیزہ ہستیاں تیری رفیق ہوں گی۔ جب آنکھیں کھول کر ان کو دیکھ لیتا ہے تو اس وقت منادی اس کی روح کو پکارے گا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ اے محمد و علی پر اطمینان حاصل کرنے والے ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً ولایت پر راضی ہو کر اور مَّرۡضِیَّۃً ثواب سے پسندیدہ ہو کر فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ میرے بندوں محمد و اہل بیتؑ میں شامل ہو جا وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ تو اس وقت اس کے لیے قبض روح سے زیادہ پسندیدہ چیز نہ ہو گی۔ ( الکافی۳: ۱۲۷)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس آیت سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو مراد لیا ہے۔ (بحار الانوار ۲۴: ۳۵۰)

واضح رہے اس قسم کی روایات کا مطلب اس آیت کے مصادیق میں سے صریح ترین مصداق کا تعین ہے۔ چنانچہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اس آیت کے صریح ترین مصداق ہیں۔


آیات 27 - 30