آیت 56
 

وَ مَا یَذۡکُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ ہُوَ اَہۡلُ التَّقۡوٰی وَ اَہۡلُ الۡمَغۡفِرَۃِ﴿٪۵۶﴾

۵۶۔ وہ یاد اس وقت رکھیں گے جب اللہ چاہے گا، وہی اس لائق ہے کہ اس سے خوف کیا جائے اور وہی بخشنے کا اہل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا یَذۡکُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ: وہ اس نصیحت سے فائدہ اس وقت اٹھا سکتے ہیں جب اللہ کی مشیت میں آئے۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ یہ خود اپنے ارادہ اختیار سے نصیحت حاصل کریں۔ اگر وہ اپنے اختیار سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ہیں تو اللہ جبراً نصیحت مسلط نہیں فرماتا بلکہ اللہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ جبراً نصیحت دینا نہیں چاہتا۔ یہ ہے اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ کامطلب۔

اس کا مطلب وہ نہیں جو بعض اہل قلم نے سمجھا ہے کہ ان پر انسان کے لیے مشیت تکوینی و تشریعی میں فرق واضح نہیں ہوا اور کہا ہے:

اگر اس دنیا میں ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے کر گزرے تو ساری دنیا کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ جو نظم اس جہاں میں قائم ہے وہ اسی وجہ سے ہے اللہ کی مشیت ساری مشیتوں پر غالب ہے۔ (تفہیم القرآن ۶:۱۵۷)

جب کہ ایسا تکوینیات میں ہے کہ انسان کو یہ قدرت حاصل نہیں ہے کہ نظام خلقت میں جو چاہے کر گزرے۔ آگے وہ تشریعیات میں بھی یہی بات کہتے ہیں:

انسان کا محض خود ہدایت چاہنا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے ہدایت مل جائے، بلکہ اسے ہدایت اس وقت ملتی ہے جب اللہ اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔

جب کہ انسان کی طرف سے ہدایت چاہنے پر اللہ کی طرف سے ہدایت ملنا ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بندہ ہدایت کے لیے حاضر، آمادہ ہو، اللہ اسے ہدایت نہ دے۔ ایسا کرنا اللہ کی مشیت نہیں ہے۔ یہ بھی اللہ کی مشیت نہیں ہے کہ بندہ ہدایت کے لیے آمادہ نہ ہو، اس کے باوجود اللہ اس پر ہدایت جبراً مسلط کر دے۔ جو ہدایت کے لیے آمادہ ہوتا ہے اللہ اسے ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے:

اللہ کی مشیت یہ ہے کہ ہدایت کے بارے میں انسان خود مختار ہے۔ لہٰذا جو اپنے اختیار سے ہدایت لیتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی مشیت کے مطابق ہے اور جو اپنے اختیار سے ہدایت نہیں لیتا جس کی وجہ سے اسے ہدایت نہیں ملتی، یہ بھی اللہ کی عدم جبر کی مشیت کے مطابق ہے۔

بندے کی طرف سے ہدایت چاہنے کی صورت میں اللہ کی مشیت ہدایت دینا ہے۔ لہٰذا اللہ کی مشیت ضرور متحقق ہو گی اور ہدایت مل جائے گی اور ہدایت نہ چاہنے کی صورت میں اللہ کی مشیت جبراً ہدایت نہ دینا ہے۔

۲۔ اَہۡلُ التَّقۡوٰی: اللہ کی ذات اس قابل ہے کہ اس کے غضب سے بچا جائے چونکہ وہی برحق معبود ہے۔ اسی نے انسان کو مکلف بنایا ہے اور اسی کی بارگاہ میں حساب دینا ہے لہٰذا اس کی ناراضگی سے دور رہنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔

۳۔ وَ اَہۡلُ الۡمَغۡفِرَۃِ: لغزش اور کوتاہی کی صورت میں مغفرت اور درگزر کرنے کے قابل مہربان ذات بھی وہی ہے۔ لہٰذا بندے کو تقویٰ یعنی خوف اور مغفرت کی امید کے درمیان ہونا چاہیے۔ یہی طریقۂ بندگی ہے۔


آیت 56