آیت 8
 

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾

۸۔ اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیجیے اور سب سے بے نیاز ہو کر صرف اسی کی طرف متوجہ ہو جائیے۔

تشریح کلمات

تَبَتَّلۡ:

( ب ت ل ) تَبَتَّلۡ کے معنی ہیں اخلاص نیت اور عبادت میں سب سے کٹ کر ایک خدا کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ حضرت مریم اور حضرت زہراعلیہما السلام کو بتول اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہستیاں دنیا کی ہر آلائش سے کٹ کر اللہ کی بندگی کرتی تھیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ: دن میں اگرچہ آپ کو عبادت کے لیے یکسوئی میسر نہیں آئے گی تاہم اسمائے حسنی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ممکن ہے۔ ذکر خدا کسی دیگر عمل کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ کَثِیۡرًا۔۔۔۔ آل عمران : ۴۱) اور اپنے رب کو خوب یاد کرو۔ صرف ذکر کے لیے کَثِیۡرًا فرمایا ہے۔ چونکہ ذکر ہر عمل کے ساتھ ہو سکتا ہے۔

۲۔ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا: سب سے کٹ کر یکسو ہو جاؤ۔ اس جگہ تَبَتَّلۡ سے مراد غیر اللہ کی عبادت اور غیر اللہ سے امیدیں وابستہ کرنے سے پرہیز ہے جب کہ حدیث میں جس تَبَتَّلۡ سے منع فرمایا ہے وہ ازدواجی زندگی اختیار نہ کرنے کے بارے میں ہے۔

دعائم الاسلام میں ہے:

عن رسول اللہؐ اَنَّہُ نَہَی عَنِ التَّبَتُّلِ وَ نَہَی النِّسَائَ اَنْ یَتَبَتَّلْنَ وَ یَقْطَعْنَ اَنْفُسَہُنَّ مِنَ الْاَزْوَاجٍ۔ ( مستدرک الوسائل ۱۴: ۲۴۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے منقطع ہونے سے منع فرمایا ہے اور عورتوں کو بھی منقطع ہونے اور شوہروں سے منقطع ہونے سے منع فرمایا ہے۔

چنانچہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے متعدد روایات میں تَبَتَّلۡ کے معنی اللہ کی طرف تضرع کے ساتھ ہاتھ بلند کرنے کے بیان کیے ہیں۔ محمد بن مسلم، زرارہ اور حمران حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے اسی آیت کے ذیل میں روایت کرتے ہیں:

اَنَّ التَّبَتُّلَ ھُنَا رَفْعُ الْیَدَیْنِ فِی الصَّلَاۃِ۔ ( وسائل الشیعۃ ۶: ۲۸۳)

اس جگہ تَبَتَّلۡ سے مراد نماز میں رفع یدین ہیں۔


آیت 8