آیت 6
 

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۶﴾

۶۔ رات کا اٹھنا ثبات قدم کے اعتبار سے زیادہ محکم اور سنجیدہ کلام کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ: مراد رات کو اٹھنا۔ یعنی خواب سے بیداری کی نَاشِئَۃَ کی تعبیر نہایت قابل توجہ ہے کہ حالت خواب میں انسان تمام حواس سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور بیداری ایک قسم کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ چنانچہ حدیث ہے:

النوم اخوالموت۔ ( مصباح الشریعہ : ۴۴)

خواب موت کا بھائی ہے

لہٰذا نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ وہی قیام اللیل ہی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام محمد باقر و حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت ہے:

ھَیَ القِیَامُ فِی آخِرِ اللَّیْلِ اِلَی صَلَوۃِ اللَّیْلِ۔ ( مستدرک الوسائل ۶: ۳۳۲۔ مجمع البیان ۔ ذیل آیت)

اس سے مراد رات کے آخری حصے میں نماز شب کے لیے اٹھنا ہے۔

۲۔ اَشَدُّ وَطۡاً: رات کا اٹھنا ثبات قدم کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے۔ الوطئی لغت میں پاؤں کے زمین پر جمنے کو کہتے ہیں۔ یہاں نماز گزار کے یکسوئی کے ساتھ جم کر عبادت کرنے کا استعارہ ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے وَطْـاً سے مراد تاثیر ہو یعنی رات کی عبادت۔ اشد تأثیراً ہے۔

۳۔ وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا: کلام زیادہ سنجیدہ اور پختہ ہوتا ہے۔ یعنی رات کی تاریکی میں انسان جب عبادت کے لیے اذکار و تلاوت کو زبان پر جاری کر رہا ہو تو یہ صرف زبان پر جاری ہو کر گزر نہیں جائیں گے بلکہ اقوم ہو گا، پائیدار ہو گا، دل میں ٹھہر جائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے رات کی تاریکی، پرسکون ماحول اور فارغ البال لمحات زیادہ مناسب ہیں جن میں دنیا والوں کے شور و غل سے فارغ، یکسو سناٹا میسر آتا ہے اور اپنے خالق سے بہتر اور بیشتر طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔

رات کو روح میں صفائی، عقل کو فراغت، ذہن کو سکون اور ضمیر، وجدان کو مطلوبہ فضا میسر آتی ہے۔


آیت 6