آیات 49 - 52
 

وَ اِنَّا لَنَعۡلَمُ اَنَّ مِنۡکُمۡ مُّکَذِّبِیۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تمہارے درمیان کچھ لوگ تکذیب کرنے والے ہیں۔

وَ اِنَّہٗ لَحَسۡرَۃٌ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ یہ (تکذیب) کفار کے لیے یقینا (باعث) حسرت ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَحَقُّ الۡیَقِیۡنِ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور یہ سراسر حق پر مبنی یقینی ہے۔

فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ پس آپ اپنے عظیم رب کے نام کی تسبیح کریں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنَّا لَنَعۡلَمُ: اللہ کے علم سے کوئی تکذیب کرنے والا نکل نہیں سکتا تو عذاب سے بھی نہیں بچ سکتا۔

۲۔ وَ اِنَّہٗ لَحَسۡرَۃٌ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ: قیامت کے دن کفار کے لیے یہ عدم ایمان ایک حسرت ہو گا کہ کاش دنیا میں اس قرآن پر ایمان لے آتے، آج اس دائمی عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔

۳۔ وَ اِنَّہٗ لَحَقُّ الۡیَقِیۡنِ: اس قرآن کی حقانیت میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے۔ یہ وہ حق ہے جس پر یقین بھی حاصل ہے جو یقین کا کامل درجہ ہے۔ حق واقع کو کہتے ہیں جس کے مقابلے میں باطل آتا ہے اور یقین وہ قطعی عقیدہ ہے جو واقع کے مطابق ہے۔ لہٰذا جب واقع اور یقین دونوں ایک جگہ جمع ہو جائیں تو یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ قرآن کی حقانیت حق اوریقین کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔

۴۔ فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ: اس اللہ کی تسبیح کرو جو کمال مطلق کا مالک ہے۔ جس میں کوئی نقص و عیب نہیں ہے۔ جس نے قرآن جیسی کتاب ہدایت نازل فرمائی ہے۔


آیات 49 - 52