آیات 28 - 29
 

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَہۡلَکَنِیَ اللّٰہُ وَ مَنۡ مَّعِیَ اَوۡ رَحِمَنَا ۙ فَمَنۡ یُّجِیۡرُ الۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۲۸﴾

۲۸۔ کہدیجئے: مجھے بتلاؤ کہ اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا ؟

قُلۡ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡنَا ۚ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کہدیجئے: وہی رحمن ہے جس پر ہم ایمان لا چکے ہیں اور اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون صریح گمراہی میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ: مشرکین اس خیال میں تھے یہ اسلامی تحریک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات تک محدود ہے۔ بعض اوقات وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بد دعا دیتے تھے کہ انہیں بتوں کی بددعا لگے ان کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔ ہم اپنے کفر اور شرک پر قائم رہیں۔ ان مشرکین کے اس خیال کے جواب میں فرمایا: آپ ان سے کہدیں: اللہ مجھ سے میری زندگی اور میرے بعد میری معیت میں ایمان لانے والوں کی زندگی لے لے یا تمہاری ہلاکت تک ہم پر رحم کرے اور سلامت رکھے، ہر دو صورت میں تمہیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور عذاب الٰہی میں مبتلا ہونا ہے۔

یہ اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمایا:

وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۴۶)

اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے۔

۲۔ قُلۡ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ: کافروں سے کہدیجیے جسے ہم پکارتے ہیں اور میرے خلاف جس اللہ کو تم بددعا کے لیے پکارتے ہو وہ ذات رحمن ہے جس کی رحمت سب سے وسیع ہے ہم تو اسی رحمن ذات پر ایمان لے آئے ہیں۔ ہم اس کی رحمت کے شامل حال ہوں گے۔

۳۔ وَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡنَا: ہم اس رحمن ذات کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتے۔ لہٰذا ہمیں وہ خطرہ لاحق نہیں ہے جو تمہیں لاحق ہے۔

۴۔ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ: جب قیامت کا دن آئے گا اس دن تم سب کو علم ہو جائے گا گمراہی میں ہم تھے یا تم۔


آیات 28 - 29