آیت 8
 

وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۸﴾

۸۔ اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتے دار یتیم اور مسکین موجود ہوں تو اس (میراث) میں سے انہیں بھی کچھ دیا کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ: یہاں خطاب میت کے ولی اور ورثاء سے ہے کہ میراث کی تقسیم کے وقت جو رشتہ دار اور غریب و مسکین اور یتیم بچے موجود ہوں تو اگرچہ از روئے قانون میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن از روئے شفقت تم خود اپنی طرف سے انہیں کچھ دے دیا کرو۔

۲۔ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا: اور مال و میراث سے محرومی کے ساتھ تم ان سے دل شکنی کی باتیں نہ کیا کرو۔ مال سے محرومیت کی صورت میں معمولی سی بدکلامی دل میں کینہ اور عداوت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس ممکنہ فساد کی روک تھام کے لیے کچھ مال دینے اور اچھے انداز میں بات کرنے کا حکم دیا۔

یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے (التبیان ۳: ۱۲۲) اور حکم واجب ہے یا مستحب اپنے مرجع تقلید کے فتویٰ کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ جہاں مال دینے کا حکم آتا ہے وہاں احترام آدمیت ملحوظ رکھنے کا بھی حکم ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہ اس لیے ہو کہ اس جگہ انسان کا وقار مجروح ہونے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔


آیت 8