آیت 3
 

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے، پس ان کے دلوں پر مہر لگ گئی لہٰذا اب یہ سمجھتے نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ ان منافقین کے اس جرم میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے ایمان لے آئے، اسلام کی حقانیت ان پر واضح ہو گئی جس کی وجہ سے ان کے دل میں ایمان اتر گیا تھا۔ ثُمَّ کَفَرُوۡا بعد میں وہ کافر ہو گئے یعنی اسلام کی حقانیت واضح ہونے کے باوجود کفر اختیار کیا۔ جیسا کہ سورہ توبہ آیت ۶۶ میں ان منافقین کے بارے میں فرمایا:

لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ۔۔

عذر تراشی مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔

بعض مفسرین کا یہ کہنا کہ اٰمَنُوۡا سے مراد ظاہری اقرار ہے اور ثُمَّ کَفَرُوۡا سے مراد باطنی انکار ہے، درست نہیں ہے کیونکہ ظاہری اقرار کو ایمان نہیں کہا جاتا، اسے اسلام کہتے ہیں،البتہ منافقین کے دعوائے ایمان کے مطابق کہا ہو ۔ جیسے:

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۴)

اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔

۲۔ فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ: حق کے منکشف ہونے کے بعد کفر اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ان سے ہاتھ اُٹھا لیا۔ اب ہدایت کے سرچشمے سے ہدایت کا دروازہ بند ہونے پر یہ ایمان کے قابل بھی نہ رہے، نہ کسی کلمہ حق کے سمجھنے کے اہل رہے۔


آیت 3