آیت 200
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۲۰۰﴾٪

۲۰۰۔اے ایمان والو!صبر سے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔

تشریح کلمات

رَابِطُوۡا:

( ر ب ط ) المرابطۃ۔ سرحدوں کے دفاع کے لیے پہرہ دینا۔ مورچہ بند رہنا۔ جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں، اسے رباط کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

سورۂ مبارکہ کے آخر میں امت مومنہ کے لیے اس خدائی تحریک کی کامیابی اور جہاد کے چار ارکان کا ذکر ہو رہا ہے:

۱۔ اصۡبِرُوۡا: صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے۔ یہ راستہ خون کی ندیوں، مخالف آندھیوں، مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ دینے والوں کی قلت، دشمنوں کی کثرت، قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی، ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں، لہٰذا اس کے اراکین کے صبر و تحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔

اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے بھی صبر درکار ہے۔ بھوک اور ناداری میں بھی مال حرام سے اجتناب، غیظ و غضب، جذبۂ انتقام اور قوت کے باوجود تجاوز اور ظلم سے پرہیز اور دیگر ہر قسم کی خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بنیاد بھی صبر ہے۔ جب تک صبر و حوصلہ نہ ہو، اطاعت رب کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ ہو گا۔ خود نماز کے بارے میں ارشا د ہوا:

وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ﴿﴾ (۲بقرہ:۴۵)

اور صبر اور نماز کا سہارا لو اور یہ (نماز) بارگراں ہے، مگر خشوع رکھنے والوں پر نہیں۔

۲۔ وَ صَابِرُوۡا: کفار کے مقابلے میں استقامت اور پامردی کا مظاہرہ کرو۔ صبر و تحمل کا مقابلہ صبر و تحمل سے، استقامت کا مقابلہ استقامت سے اور جدوجہد کا مقابلہ جدوجہد سے کرو بلکہ اگر اہل باطل اپنے باطل پرصبر کرتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ حق کی خاطر زیادہ صبر و استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں۔

۳۔ وَ رَابِطُوۡا: دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے مستعد اور مورچہ بند رہو اور اسلام کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر وقت آمادہ رہو۔ جیساکہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ ۔۔۔(۸ انفال:۶۰)

اور ان (کفار) کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو۔۔۔۔

قرآن کے اس حکم سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل کو ہر عصر میں عیار دشمنوں سے خطرہ لاحق رہے گا، لہٰذا ہر عصر کے تقاضوں کے مطابق اسلحہ، سامان حرب و دفاع کی تیاری اور فراہمی دینی فرائض میں شامل ہے۔

مرابطہ کے وسیع مفہوم کے مطابق نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی اس حکم میں شامل ہے۔ چنانچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظریاتی محافظین بھی اس آیت میں شامل ہیں۔

احادیث

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

اِصْبِرُوْا عَلَی الْمَصَائِبِ، وَ صَابِرُوْا عَلَی عَدُوِّکُمْ و رَابِطُوْا عَدُوَّکُمْ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۷۔ التبیان)

مصیبتوں پر صبرکرو اور اپنے دشمن کے مقابلے میں صبر و تحمل دکھاؤ اور دشمن کے خلاف مورچہ بند رہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

عُلَمَائُ شِیْعَتِنَا مُرَابِطُوْنَ فِی الثَّغْرِ ۔ (احتجاج ۱:۱۷)

ہمارے شیعہ علماء سرحدوں کے محافظ ہیں۔

۴۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ: تقویٰ مومن کی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔ حتیٰ کہ ایک مورچہ بند سپاہی کے لیے بھی تقویٰ ایک طاقتور اسلحہ ہے یا یوں کہیے کہ ایک محفوظ مورچہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی معاشرے کے افراد دشمنو ں کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح باہم مربوط، منظم، ثابت قدم، صابر اورمتحمل مزاج ہوتے ہیں۔

۲۔ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنانا مسلمانوں کا اجتماعی اور ریاستی فریضہ ہے۔


آیت 200