آیات 23 - 24
 

ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی بادشاہ ہے، نہایت پاکیزہ، سلامتی دینے والا، امان دینے والا، نگہبان، بڑا غالب آنے والا، بڑی طاقت والا، کبریائی کا مالک، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿٪۲۴﴾

۲۴۔ وہی اللہ ہی خالق، موجد اور صورتگر ہے جس کے لیے حسین ترین نام ہیں، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلۡمَلِکُ: تمام کائنات پر اللہ کی بادشاہی، اللہ کی حکمرانی ہے اور وہ اللہ کی تدبیر و تنظیم پر قائم ہے۔ اس کی حکومت کے آگے کسی کا بس نہیں چل سکتا۔

۲۔ الۡقُدُّوۡسُ: القدس کا صیغۂ مبالغہ ہے۔ یعنی ہر نقص سے نہایت پاک ہے۔

۳۔ السَّلٰمُ: اس کی ذات اپنی مخلوقات کو سلامتی دینے والی ہے۔ نہ وہ ان پر ظلم کرتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور نہ ان کا اجر و ثواب ضائع کرتا ہے۔

۴۔ الۡمُؤۡمِنُ: امن دینے والا۔ چونکہ ایمان والوں کو اللہ کے قرب میں ہی امن و سکون ملتا ہے یا اس اعتبار سے کہ اللہ مومنوں کے دلوں میں اطمینان خلق کرنے والا ہے یا اس اعتبار سے مومنوں کو امن کی

خوشخبری دینے والا کہ انہیں نہ خوف ہو گا نہ حزن۔

۵۔ الۡمُہَیۡمِنُ: بالادستی کے ساتھ حفاظت اور نگہبانی کرنے والا۔ قرطبی نے کہا ہے: ای عالیاً و مرتفعاً۔ اس لفظ کے معنی کے بارے میں اقوال بہت زیادہ ہیں۔

۶۔ الۡعَزِیۡزُ: ہر چیز پر غالب آنے والا۔ ضرب المثل ہے من عزّبزّ جو غالب آئے وہ لوٹ لے۔

۷۔ الۡجَبَّارُ: عظمت والا۔ ابن عباس کہتے ہیں۔ جبروت اللہ عظمتہ بعض کے نزدیک جبار : اصلاح کرنے والا۔ اسی سے ہے: یا جابر العظم الکسیر اے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا جوڑنے والے۔

۸۔ الۡمُتَکَبِّرُ: اپنی کبریائی اور عظمت کا اظہار کرنے والا۔

۹۔ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ: ان صفات کا مالک اللہ ان تمام باتوں سے پاک و منزہ اور بالاتر ہے جن کی نسبت مشرکین اس کی طرف دیتے ہیں۔

۱۰۔ ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ: اللہ ہی خالق ہے۔ خلق کی تین قسمیں ہیں: خلق ابداعی یعنی عدم سے وجود لانا۔ یہ خلق صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔ خلق ترکیبی یعنی مختلف چیزوں کو جوڑ کر ایک نئی چیز بنانا اور خلق تقدیری۔

۱۱۔ الۡبَارِئُ: ( ب ر ء ) پیدا کرنے والا۔ یہ لفظ ایجاد و اختراع یعنی عدم سے وجود میں لانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔

۱۲۔ الۡمُصَوِّرُ: صورت گری کرنے والا۔ جو خلق کے مراحل سے عبارت ہے۔

۱۳۔ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی: اسمائے حسنی کے بارے میں سورہ اعراف آیت ۱۸۰ میں ذکر ہو چکا ہے۔

۱۴۔ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: کائنات کی تمام موجودات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ اس موضوع پر سورہ بنی اسرائیل آیت ۴۴ میں تفصیلی بحث ہو گئی ہے۔


آیات 23 - 24