آیات 3 - 4
 

اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ﴿۳﴾

۳۔ آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

وَ فِیۡ خَلۡقِکُمۡ وَ مَا یَبُثُّ مِنۡ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور تمہاری خلقت میں اور ان جانوروں میں جنہیں اللہ نے پھیلا رکھا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ: ان آیات کے مخاطبین چونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے معترف اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور مدبریت کے منکر تھے اس لیے انہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی آیات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔

کبھی ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ۔۔۔۔ (۳ آل عمران : ۱۹۰) آسمانوں اور زمین کو جس نہج پر خلق فرمایا ہے اس میں اللہ کی ربوبیت کے دلائل موجود ہیں کہ خالق نے اس کائنات میں حیات کو فروغ دینے کے لیے کیا کیا سامان خلق فرمایا ہے اور کبھی فِیۡ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کے بعد ان کے وجود میں بھی اس کی ربوبیت پر دلالت کرنے والے معجزات موجود ہیں۔ لہٰذا آسمانوں اور زمین میں دو قسم کی آیات و معجزات موجود ہیں۔ ایک خالق کے اعتبار سے اور دوسرا مخلوق کے اعتبار سے۔ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ میں خالقیت کے اعتبار سے اور فِیۡ السَّمٰوٰتِ میں مخلوق کے اعتبار سے آیات کا ذکر ہے۔

دوسری قسم کی نشانیوں کا متعدد آیات میں ذکر ہے:

وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ (۵۱ ذاریات: ۲۲)

اور تمہاری روزی آسمان میں ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ (۵۱ ذاریات: ۲۰)

اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں۔

آسمانوں اور زمین میں انسان کی بقائے حیات و تدبیر زندگی کے لیے موجود آیات کا شمار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

۲۔ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ: آیات کو ذریعہ ایمان بنانے والوں کے لیے یہ دلائل و معجزات ہیں۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہ ان معجزات کے معجزاتی پہلو سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ اس لیے عملاً وہ ان کے لیے آیات نہیں بن پاتیں جبکہ اصولاً یہ سب کے لیے آیات تھیں۔

۳۔ وَ فِیۡ خَلۡقِکُمۡ: خود تم انسانوں کو جس نہج پر خلق کیا ہے اس میں خالقیت کے اعتبار سے آیات موجود ہیں۔ اگر انسانوں کے خالق نے انسانوں کو اس طرح خلق کیا ہوتا کہ وہ خالق کے محتاج نہ رہیں تو ممکن تھا اللہ انسان کا خالق ہے، رازق و مدبر حیات نہیں ہے لیکن یہ انسان ہر لمحہ ہر سانس میں اللہ کی خلق کردہ چیزوں کا محتاج ہے تو پھر خالق ہی مدبر ہوا۔

۴۔ وَ مَا یَبُثُّ مِنۡ دَآبَّۃٍ: دَآبَّۃٍ رینگنے والے کو کہتے ہیں جس میں تمام قسم کے جاندار شامل ہو جاتے ہیں۔ لفظ دَآبَّۃٍ کے ساتھ یَبُثُّ پھیلانے کا ذکر قابل توجہ ہے۔ اس میں دَآبَّۃٍ کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ دَآبَّۃٍ جانداروں کی انواع کی تعداد لاکھوں میں ہے، افراد کی تعداد کا علم صرف اللہ کو ہے۔

ان جانداروں میں ایک سیل پر مشتمل جانداروں سے لے کر نہنگ اور ہاتھی تک تمام ایک نظام تخلیق سے منسلک ہیں۔ ایک نامرئی جاندار میں بھی دماغ، اعصاب، حواس، ہاضمہ، جاذبہ دافعہ وغیرہ سب موجود ہیں۔ پھر ان سب میں، ہر ایک تخلیق میں پوشیدہ حکمت اور مصلحت موجود ہے جس کا انکشاف انسان کی رشد کے ساتھ ساتھ ہوتا جاتا ہے۔

۵۔ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ: ان میں اہل یقین کے لیے آیات و معجزات پوشیدہ ہیں۔ طالب یقین کو یہ نشانیاں نظر آئیں گی کہ یہ سب ایک ہی قوت کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔ ان موجودات میں موجود نظام کی وحدت، نظام دہندہ کی وحدت پر دلالت کرتی ہے۔


آیات 3 - 4