آیت 53
 

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۵۳﴾

۵۳۔ ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے رب کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟

تفسیر آیات

۱۔ سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ: مکہ میں نہایت نامساعد حالات میں نازل ہونے والی اس آیت میں ایک عظیم اور تابناک مستقبل کی نوید ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جس میں کائنات آفاق اور کائنات انفس میں ہماری صناعیت، وحدانیت اور قرآن کی صداقت، دین اسلام کی حقانیت کی نشانیاں اس حد تک وضاحت کے ساتھ دکھائی جائیں گی کہ حق کھل کر سامنے آ جائے:

الف۔ کائناتِ آفاق: اس کائنات کے بارے میں عصر نزول قرآن اور اس سے پہلے بطلیموسی نظریہ افلاک کے مطابق اس کائنات، خاص کر اپنے منظومہ شمسی کے بارے میں نظریات سو فیصد اشتباہات پر مبنی تھے۔ اس نظام شمسی کی مرکزی حیثیت کے حامل سورج کو زمین کے تابع ایک سیارہ شمار کیا جاتا تھا۔ چنانچہ انسان پر آفاق کے دروازے کھل رہے ہیں اور کائنات کے اسرار پر آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔

اپنے کرۂ ارض کے بارے میں بہت کچھ جاننے لگا ہے: وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ( ۵۱ ذاریات: ۲۰ (ترجمہ) اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں۔) کے تحت زمین میں پوشیدہ اسرار قدرت سے پردہ ہٹنا شروع ہوا ہے۔ چار عناصر کی حدود پھلانگ کر بیسیوں عناصر کا کھوج لگایا ہے۔ ان عناصر کی ترتیب و تجزیہ کے رموز سے واقف ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حتیٰ نامرئی ذرہ (ایٹم) کے شکم میں جھانک کر دیکھ لیا ہے۔ آفاق بعید ستاروں، کہکشاؤں اور کائنات میں موجود مختلف نظاموں کے بارے میں بہت جاننا شروع ہو گیا ہے تاہم ابھی نظام کائنات کے اصل راز تک رسائی بہت دور ہے۔ ابھی تک اس کائنات پر حاکم مطلوبہ کشش کی توجیہ نہ ہو سکی چونکہ موجودہ کشش اجرام سماوی کو بکھرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک بلیک ہول (black-hole) کا نظریہ قائم کیا ہوا ہے جو زیر تحقیق ہے اور خیال ہے کہ اجرام سماوی کو بکھرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے لازم کشش میں سے بیس فیصد کشش اس بلیک ہول سے ملنی چاہیے۔خود بلیک ہول کیا چیز ہے؟ یہ ایک تھیوری ہے۔ اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ صرف آثار (کشش) سے اس کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔

قرآن کا وعدہ ہے وہ وقت آئے گا جس میں آفاق میں موجود آیات الٰہی اس حد تک منکشف ہو جائیں گی کہ قرآنی تعلیمات کی حقانیت واضح ہو جائے۔

ب۔ کائنات انفس: انسان کی ساخت و بافت خود اپنی جگہ، بقول الکسس کاریل (Alexis Carrel) ایک نامعلوم کائنات ہے۔

انسانی تخلیق میں استعمال ہونے والی بنیادی اینٹ سیل (Cell) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اس کائنات کا سب سے زیادہ محیر العقول عجوبہ ہے۔ انسانی تخلیق میں سیلز کی حیرت انگیز فعالیت کے بارے میں تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ نساء آیت ۱۱۹۔

کائنات انفس میں اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی حیات ہے جو ایک سربستہ راز اور پراسرار حقیقت ہے۔ انسان نے اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا قدم آگے بڑھایا ہے۔

چنانچہ ۲۶،جون ۲۰۰۰ء کو انکشاف کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس روز سینۂ کائنات میں پوشیدہ ایک راز ’’راز حیات‘‘ سے پردہ اٹھ گیا اور انسانی D.N.A میں تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جینیاتی کوڈ کا معمہ حل ہو گیا۔ کہتے ہیں حیات کا راز ان تین ارب سالموں میں پوشیدہ ہے۔ تشریح کے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۲۸۔

سائنسدان فرانسس کولنز (Francis Collins) کہتے ہیں:

سائنسداں اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ ’’ حیات ‘‘ کو سمجھ سکیں۔ (روزنامہ جنگ تحریر لی سلور ، ترجمہ این ایچ تمکین )

۲۔ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ: یہ وعدہ اس علم و شہود کی بنیاد پر ہے کہ کائنات کی ہر چیز کسی زمانے کی قید کے بغیر اس کے سامنے ہے۔

مفسرین کا یہ نظریہ کہ آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں سے مراد فتوحات اسلامیہ ہیں، دو اعتبار سے ظہور قرآن کے خلاف ہے:

اول یہ کہ فتوحات کے لیے ’’اللہ کی نشانیاں‘‘ کی تعبیر قرآن میں استعمال نہیں ہوئی۔ فتوحات کے لیے فتح ونصرت اور تائید کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

دوم یہ کہ اَنۡفُسِہِمۡ سے مراد قریبی علاقے لیتے ہیں جو خلاف ظاہر بلکہ خلاف نص ہے۔ چونکہ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ میں انفس سے مراد قریبی علاقے لیا جائے، بعید از فہم ہے۔

واضح رہے انسان کی علمی پیشرفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وجود کے انکار میں وہ زور نہیں رہا جو سائنسی دور کی ابتدا میں تھا۔ حتیٰ قیامت اور حیات بعدالموت کا مسئلہ بھی سائنس کی روشی میں حل ہو رہا ہے۔


آیت 53