آیات 84 - 85
 

فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗ وَ کَفَرۡنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشۡرِکِیۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے: ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اور جسے ہم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے اس کا انکار کرتے ہیں۔

فَلَمۡ یَکُ یَنۡفَعُہُمۡ اِیۡمَانُہُمۡ لَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا ؕ سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ فِیۡ عِبَادِہٖ ۚ وَ خَسِرَ ہُنَالِکَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿٪۸۵﴾

۸۵۔ لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں رہے گا، یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں میں چلی آ رہی ہے اور اس وقت کفار خسارے میں پڑ گئے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا: جب عذاب کا مشاہدہ ہو گا تو سارے پردے ہٹ چکے اور حقائق سامنے آ گئے ہوں گے اس وقت ایمان لانا ایک قہری بات ہو گی اگرچہ اس وقت اللہ کی وحدانیت پر یقین ہوگا اور ایمان بھی پختہ ہو گا لیکن یہ قہری ایمان ہے۔

۲۔ فَلَمۡ یَکُ یَنۡفَعُہُمۡ اِیۡمَانُہُمۡ: لیکن اس قہری ایمان کا کوئی فائدہ نہ ہو گا چونکہ اس ایمان کا تعلق اختیار سے نہیں۔ دنیا میں انسان ایمان کا انتخاب کرتا ہے اور کفر و ایمان میں سے ایمان کو اختیار و ارادے کے ساتھ قبول کرتا ہے لیکن عذاب کے مشاہدے کے بعد سوائے ایمان کے دوسری صورت نہیں ہے۔

۲۔ سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ: تمام بندوں کے لیے بلا استثنا اللہ کا یہ دستور رہا ہے کہ موت سامنے آنے اور عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد نہ توبہ قبول ہو گی، نہ ایمان کا کوئی فائدہ ہو گا۔

مروی ہے:

حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کا ایمان کیوں قبول نہیں کیا حالانکہ وہ اللہ پر ایمان لے آیا اور توحید کا اقرار کیا تھا؟ فرمایا: چونکہ وہ عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایمان لایا تھا۔ ( تفسیر البرہان ۴: ۷۷۲)


آیات 84 - 85