آیت 83
 

فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ پھر جب ان کے پیغمبر واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو وہ اس علم پر نازاں تھے جو ان کے پاس تھا، پھر انہیں اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ: تم سے پہلے گزرے ہوئے قوموں کی طرف علوم الٰہی کی گوہر فشانی کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام آئے اور جاہلیت کے اندھیروں میں علم کی روشنی پھیلائی۔ تاریک دلوں میں ابدی سعادت پر مشتمل ضیا پاشی کی تو اس علم کو بڑی حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا گیا۔ اس کا مذاق اڑایا اور اس علم کے حاملین کو حقیر سمجھا۔

۲۔ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ: اور ان کے پاس جو سطحی علم ہے اس پر یہ بہت خوش ہیں:

یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا۔۔۔۔ (۳۰ روم: ۷)

لوگ تو دنیا کی ظاہری زندگی کے بارے میں جانتے ہیں۔

لیکن یہ لوگ حقائق سے آگہی نہیں رکھتے۔ مفروضوں کو علم کا نام دیتے، واہموں کو معلومات شمار کرتے اور اندھی تقلید کو دانشمندی سمجھتے ہیں۔

جدید جاہلیت میں بھی یہی صورت حال ہے کہ سائنسی باتیں خواہ ابھی تھیوری کے مرحلوں میں ہی کیوں نہ ہوں لوگوں میں علوم انبیاء علیہم السلام سے زیادہ قابل توجہ ہیں بلکہ دینی علوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دینی علوم کے حاملین کو حقیر سمجھتے بلکہ دینی علوم کو علم ہی شمار نہیں کرتے انہیں ان پڑھ کہ دیتے ہیں جب کہ خود چند اجنبی کھوکھلی اصطلاحات کے علاوہ ہرگونہ علم سے فارغ ہوتے ہیں۔

۳۔ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ: جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے اسی چیز نے انہیں گرفت میں لے لیا۔ وہ اسی دام میں پھنس گئے جسے وہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔


آیت 83