آیت 4
 

لَوۡ اَرَادَ اللّٰہُ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰی مِمَّا یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ﴿۴﴾

۴۔ اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا منتخب کر لیتا، وہ پاکیزہ ہے اور وہ اللہ یکتا، غالب ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اول تو بفرض محال اللہ کا کوئی بیٹا ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے وہ اللہ کا حصہ ہے جو اس سے جدا ہوا ہے۔ یہ ناممکن ہے۔

دوم یہ کہ اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو بیٹا بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ کی مخلوق بیٹا نہیں ہو گا، دیگر مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہو گی۔ پس دونوں میں رشتہ خالق و مخلوق کا ہے، والد، ولد کا نہیں اور اگر مخلوق نہ ہوتا تو اللہ کی ذات میں تعدد لازم آتا۔

۲۔ سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ: تعدد سے اللہ کی ذات منزہ ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس میں تعدد آنا محال ہے۔ وہ قہار ہے اس کے مقابلے میں کسی اور وجود میں استقلال نہیں آ سکتا بلکہ وہ اللہ کی قہاریت کے قبضے میں ہے۔ لہٰذا اللہ کا کوئی فرزند نہیں ہو سکتا۔ رہا یہ سوال کہ حقیقی بیٹا نہیں ہو سکتا تو کسی کو اعزازی بیٹا بنایا جائے تو کیا حرج ہے؟ جواب یہ ہے کہ اعزاز کا مطلب عزت دینا، برگزیدہ کرنا ہے۔ اگر اللہ اپنی مخلوق، بندوں میں سے کسی کو عزت دیتا اور برگزیدہ فرماتا ہے تو وہ اس کا بیٹا نہیں کہلائے گا۔ یہ شان الٰہی میں گستاخی ہے بلکہ اسے اللہ کا مقرب بندہ کہا جائے گا۔


آیت 4