آیات 52 - 53
 

وَّ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِہٖ ۚ وَ اَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿ۚۖ۵۲﴾

۵۲۔ (اب) وہ کہیں گے: ہم قیامت پر ایمان لے آئے لیکن اب وہ اتنی دور نکلی ہوئی چیز کو کہاں پا سکیں گے؟

وَّ قَدۡ کَفَرُوۡا بِہٖ مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ یَقۡذِفُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور اس سے پہلے بھی وہ اس کا انکار کر چکے تھے اور انہوں نے بن دیکھے دور ہی دور سے (گمان کے) تیر چلائے تھے۔

تشریح کلمات

التَّنَاوُشُ:

( ن و ل ) تناول۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا: جب موت اور عذاب سامنے آجاتا ہے تو ایمان کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں لیکن انہوں نے فرصت ہاتھ سے دے دی اور بہت دور نکل گئے کہ واپسی ناممکن ہے۔

۲۔ وَّ قَدۡ کَفَرُوۡا: جب فرصت ہاتھ میں تھی اس وقت کفر اختیار کیا قرآن کی دعوت ٹھکرا دی۔ اب جبری ایمان قبول نہیں ہے۔

۳۔ وَ یَقۡذِفُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ: دنیا کے دار التکلیف میں تو ان لوگوں نے ظن و گمان کی بنیاد پر ایسے الزام عائد کئے کہ نعوذ باللّٰہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر، کذاب اور مفتری ہیں حالانکہ انہوں نے ان میں نہ سحر دیکھا، نہ جھوٹ بولتے سنا، نہ کسی انسان پر افتراء باندھتے دیکھا تھا۔

۴۔ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ: وہ گمان کے تیر ایسے دور مقامات سے چلاتے ہیں جو ہدف سے بہت دور ہیں۔ اب وہ دار التکلیف سے بہت دور نکل چکے ہیں۔ ان کا یہ دعوائے ایمان ہدف تک پہنچنا ناممکن ہے۔


آیات 52 - 53