آیت 33
 

وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾

۳۳۔ اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

تشریح کلمات

قَرۡنَ:

( ق ر ر ) قَرَّ کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں۔

تَبَرُّجَ:

( ب ر ج ) التبرج ظاہر ہونا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ: اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو۔ جناب مودودی کا ترجمہ ہے: اپنے گھروں میں ٹک کر رہو۔ یہ حکم تمام عورتوں کے لیے ہے لیکن خطاب رسولؐ کی ازواج سے ہے چونکہ نفاذ اسلام کی ابتدا اس کے داعی کے گھر سے ہونی چاہیے۔

عورت کا وقار، عزت اور عظمت اس کی عفت میں پوشیدہ ہے اور اسے تحفظ گھر ہی میں ملتا ہے۔ چنانچہ عورتوں کا بیرون خانہ عفت کے منافی سرگرمیوں میں شریک ہونے کا نتیجہ ایک المیہ ہے۔

۲۔ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ: اس آیت کریمہ میں دو لفظوں کے معنی قابل توجہ ہیں: تبرج اور جاھلیت اولیٰ۔

تبرج برج ظاہر اور نمایاں ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے حسن وجمال، چال ڈھال اور زیب و زینت نمایاں کرے کہ غیر مردوں کی نگاہ پڑ سکے۔

مولانا مودودی اس جگہ لکھتے ہیں:

عورت کی بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں جو بڑی سی بڑی دلیل پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا لیکن یہ استدلال جو پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا؟ عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل نے الزھدین الزھدین، ابن المنذر، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اس آیت وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک ان کا دوپٹہ بھیک جاتا تھا کیونکہ اس پر انہیں اپنی غلطی یاد آتی تھی جو ان سے جنگ جمل میں ہوئی۔

چنانچہ حضرت عائشہؓ نے حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے مکہ میں ام المومنین ام سلمہؓ سے اس جنگ میں ساتھ دینے کے لیے کہا تو ام سلمہؓ نے کہا:

قد جمع القرآن ذیلک فلا تندحیہ۔ ( بلاغات النسآ ص۱۵)

قرآن نے تمہارا دامن سمیٹا ہے تو اسے مت پھیلاؤ۔

۲۔ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی: اسلام آنے سے پہلے زمان جاہلیت کی عورتوں کی طرح نہ نکلو چونکہ جاہلیت میں بے پردگی کے ساتھ بے عفتی عام تھی۔ جاہلیت سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام آنے سے پہلے تھی اور اسلام آنے کے بعد جاہلیت پر عمل کرنے والے جاہلیت ثانیہ کے مرتکب ہوں گے۔ چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ستکون جاھلیۃ اخری۔۔۔۔ (بحار الانوار:۲۲: ۱۸۹)

دوسری جاہلیت آنے والی ہے۔

آج ہر شخص کو نظر آتا ہے کہ دوسری جاہلیت شروع ہو چکی ہے بلکہ اپنی جاہلیت کو پیش کرنے کے لیے جو وسائل و ذرائع آج کل کی دوسری جاہلیت کے پاس ہیں وہ جاہلیت اولٰی کے پاس نہ تھے۔

۳۔ وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ: اگرچہ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے تاہم ازواج رسول کے لیے ان کے مراتب اور رسالت سے قربت کی وجہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا:

اس آیہ شریفہ میں سب سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ یہاں اہل بیت علیہم السلام سے مراد کون ہیں:

اَہۡلَ: پہلے ہم قرآنی استعمالات کا ذکر کرتے ہیں کہ لفظ اہل کن معنوں میں استعمال ہوا ہے:

I۔ زوجہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں فرمایا: وَ سَارَ بِاَہۡلِہٖۤ۔۔۔۔ (۲۸ قصص: ۲۹) یہاں اہل سے مراد زوجۂ موسیٰ علیہ السلام ہے۔ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا۔۔۔۔ (۱۲یوسف:۲۵) یہاں اہل سے مراد عزیز مصر کی زوجہ ہے۔

ii۔ خاندان: جس میں اولاد و ازواج دونوں شامل ہیں۔ چنانچہ فرمایا: اِنَّا مُنَجُّوۡکَ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا امۡرَاَتَکَ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ۔ (۲۹العنکبوت:۳۳)

iii۔ قریبی رشتہ دار اور قبیلہ کے افراد: اس معنی میں فرمایا: وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ۔۔۔۔ (۴ النساء: ۳۵) وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا (۱۲ یوسف: ۲۶) پہلی آیت میں اہل سے مراد زن و شوہر کے رشتہ دار ہیں۔ دوسری آیت میں عزیز مصر کے رشتہ دار ہیں۔ کہتے ہیں جس نے یوسف علیہ السلام کے حق میں گواہی دی تھی وہ عزیز مصر کا بھانجا یا چچازاد بھائی تھا۔

iv۔ اولاد: جیسا کہ ارشاد ہے: فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۸۴) یہاں اہل سے مراد اولاد ہے۔ چنانچہ ایوب علیہ السلام کو دوگنی اولاد دی گئی۔

v۔ صاحب عمل: کسی عمل کے انجام دینے والے کو بھی اہل کہتے ہیں۔ جیسے اہل الکتاب، اہل علم : وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۴۳)

بیت: عربی محاورے میں انسان جس چیز کی پناہ میں ہوتا ہے اسے بیت کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے حسب و نسب کو بیوت کہتے ہیں اور بیوتات العرب کہ کر انساب مراد لیتے ہیں۔ ( مجمع البیان ذیل آیہ)

لسان العرب میں آیا ہے:

بیت العرب شرفھا۔

بیت العرب سے شرف العرب مراد لیتے ہیں۔

آگے لکھتے ہیں:

البیت من بیوتات العرب الذی یضم شرف القبیلۃ کآل حصن الفزاریین ۔

عرب بیوتات کا محاورہ قبائلی شرافت کے بیان کے لیے ہوتا ہے۔

ان استعمالات سے یہ بات سامنے آگئی کہ لفظ اَہۡلَ کے مطلق استعمال سے معنی و مطلب کا تعین نہیں ہوتا۔ جب یہ لفظ بیت کی طرف اضافہ ہو گا اہل البیت تو گھر کے اندر رہنے والے سب افراد شامل ہوں گے خواہ وہ اس گھر کے نوکر ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا لفظ اہل کے دائرہ استعمال کی وسعت کے پیش نظر ہر استعمال کے ساتھ ایک قرینہ ہوتا ہے جس سے اس کے اطلاق کی تقیید ہو جاتی ہے۔

یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ معنی کے تعین کے لیے ان استعمالات میں سے ایک استعمال کو پیش کیا جائے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ قرآن میں ایک دو جگہ اہل سے مراد زوجہ لی گئی ہے لہٰذا یہاں بھی زوجات ہی مراد ہیں، جیسا کہ بعض اہل قلم ایسا کرتے ہیں۔ اس طرز استدلال کا لازمہ یہ ہو گا کہ اگر ایک دو جگہ اہل کا لفظ زوجہ کے لیے استعمال ہوا ہے، ہر جگہ اس لفظ سے زوجہ ہی مراد ہو، اس کا کوئی قائل نہیں ہے۔

اَہۡلَ الۡبَیۡتِ کون ہیں؟ قرآن میں ایک تعبیر مختلف معانی میں استعمال ہوتی ہے تو ان معانی میں سے ایک معنی کے تعیّن کے لیے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کریں گے جن کے قلب پر قرآن نازل ہوا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کسی آیت کی کوئی تشریح نہ آئی ہو تو ہم سیاق و سباق و دیگر علامات کی طرف رجوع کریں گے۔

واضح رہے قرآن کی تفسیر و تشریح کے لیے سیاق و سباق پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدم ہے چونکہ سیاق و سباق سے مطلب ظاہراً اور سنت رسولؐ سے صراحتاً سمجھا جاتا ہے۔ فتقدم السنۃ علی السیاق تقدم النص علی الظہور۔

نیز اگر قرآن، سنت نبوی کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بقول بعضے قرآن اس کشتی کی مانند ہو کر رہ جائے گا جس کا ناخدا نہ ہو۔

ہم نے بہت سے مقتدر مفسرین کو دیکھا ہے کہ وہ ایک ضعیف ترین روایت کی وجہ سے قرآن کی صریح نص کے خلاف جاتے ہیں۔ ایک مثال پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں: سورۂ انعام کی ان آیات کو پڑھیے:

وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡکَ یُجَادِلُوۡنَکَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ وَ ہُمۡ یَنۡہَوۡنَ عَنۡہُ وَ یَنۡـَٔوۡنَ عَنۡہُ ۚ وَ اِنۡ یُّہۡلِکُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ (۶ انعام:۲۵۔ ۲۶)

اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں پھر بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ یہ (کافر) آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں، کفار کہتے ہیں: یہ تو بس قصہ ہائے پارینہ ہیں۔ اور یہ (لوگوں کو) اس سے روکتے ہیں اور (خود بھی) ان سے دور رہتے ہیں اور وہ صرف اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں مگر اس کا شعور نہیں رکھتے۔

ان آیات میں وَ ہُمۡ یَنۡہَوۡنَ عَنۡہُ میں وَ ہُمۡ کی ضمیر صریحاً ان مشرکین کی طرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھگڑتے ہیں لیکن بعض مفسرین اس ضمیر کو اس شخصیت کی طرف لوٹاتے ہیں جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کی ہے۔ یعنی قرآن کی اس صراحت کے خلاف بعض مفسر حضرات یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ وَ ہُمۡ سے مراد حضرت ابو طالب علیہ السلام ہیں جب کہ وَ ہُمۡ کی ضمیر اس چیز کی طرف جاتی ہے جو اس سے پہلے لفظاً یا حکماً مذکور ہو۔ اس سے پہلے مشرکین کا لفظ مذکور ہے۔ ان کی طرف ضمیر کا جانا نص صریح ہے۔ اس کے باوجود ایک مجہول راوی حبیب بن ابی ثابت اور دیگر صحیح روایات کے ساتھ متصادم روایت کی بنا پر قرآن کی اس صراحت کے خلاف جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ قرآن کی نص صریح کے خلاف کسی روایت کو قرآن کے ساتھ متصادم تصور کیا جائے گا اور اس روایت کو رد کیا جائے گا۔

اگر کوئی روایت نص کے نہیں، ظاہر قرآن کے خلاف ہے تو اس صورت میں اگر اس ظہور کے خلاف سنت ثابتہ موجود ہے تو ہم قرآن کے سیاق و سباق اور دیگر ظہور سے ہاتھ اٹھائیں گے لیکن روایت ضعیف ہونے کی صورت میں ہم قرآنی ظہور کے خلاف نہیں جائیں گے۔

آیۂ تطہیر میں تیں باتیں ہمارے پیش نظر ہیں: ایک یہ کہ اَہۡلَ کے معانی میں سے ایک معنی کے تعین کے لیے سنت ثابتہ پر مشتمل دلیل کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ دوسری یہ کہ آیت میں سیاق و سباق اگر ہے تو اس بارے میں سنت ثابتہ کی طرف رجوع کرنا ہو گا کہ کیا سنت ثابتہ سیاق کے مطابق ہے یا نہیں۔ تیسری بات خود سیاق کے بارے میں بحث ہو گی۔

ہم اَہۡلَ الۡبَیۡتِ میں معنی مقصود کے تعین کے لیے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ حدیث چونکہ مفسر قرآن ہے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ملے گی کہ اہل البیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام ہیں۔ اس حدیث کو اہل سنت نے چالیس طرق سے اور شیعہ نے کم سے کم تیس طرق سے روایت کیا ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا تو اس پر اجماع ہے۔ یہاں ہم چند ایک طرق کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

i۔ حضرت ام المومنین ام سلمہؓ فرماتی ہیں: یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی: اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا اور ان پر کساء ڈال دی پھر فرمایا:

اللھم ھؤلاء اھل بیتی۔

اے اللہ! یہ ہیں میرے اہل بیت۔

حضرت ام سلمہؓ کی ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا میں بھی اہل البیت میں سے نہیں ہوں؟ فرمایا:

انک علی خیرانک من ازواج النبی۔

تم خیر پر ہو تم ازواج نبی میں ہو۔

اس مضمون کی حدیث مختلف لفظوں میں درج ذیل نو شخصیات نے حضرت ام سلمہؓ سے روایت کی ہے:

الف۔ عطا بن یسار ۔ ملاحظہ ہو المستدرک ۔

ب۔ شہرب بن حوشب ۔ ملاحظہ ہو المعجم الکبیر، تفسیر طبری ذیل آیہ۔

ج۔ ابو سعید خدری ۔ دیکھیے تفسیر طبری، مشکل الآثار ۔

د۔ ابوھریرۃ۔ رجوع ہو: تفسیر طبری ۔

ھ۔ ابو لیلیٰ ملاحظہ ہو مسند احمد بن حنبل حدیث ۲۶۵۵۱۔

و۔ حکیم بن سعد ۔ ملاحظہ ہو المعجم الکبیر ۲۳: ۳۲۷

ز۔ عبد اللہ بن وھب ابن زمعہ ملاحظہ ہو تفسیر طبری ذیل آیہ۔

ک۔ عمرۃ الھمدانیۃ ۔ ملاحظہ ہو مشکل الآثار ۔

ل۔ والد عطیہ طفاوی ۔ ملاحظہ ہو مسند احمد بن حنبل ۶: ۳۰۴۔

ii۔ سعد بن ابی وقاص ۔ ان کی روایت ملاحظہ ہو سنن نسائی ۵: ۱۰۷۔ مستدرک ۲: ۱۱۷ حدیث نمبر۴۵۷۵

iii۔ حضرت ام المومنین عائشہؓ۔ ان کی روایت ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ذیل آیہ۔

iv۔ عمر بن ابی سلمہ ۔ ملاحظہ ہو سنن ترمذی ۔

ابو سعید خدری ۔ ان کی روایت میں نہایت صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ھذہ الایۃ فی خمسۃ فیّ و وفی علی و حسن و حسین و فاطمہ۔

یہ آیت پنجتن کی شان میں ہے۔ یعنی میرے اور علی اور حسن و حسین و فاطمہ کی شان میں ہے۔

ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ذیل آیہ۔ تفسیر ابن ابی حاتم ذیل آیت۔

vi۔ عبد اللہ بن عباس ۔ ان کی روایت ملاحظہ ہو سنن نسائی ۵: ۱۱۲ حدیث ۸۴۰۹

vii۔ الامام حسن علیہ السلام ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

ہم وہ اہل بیت ہیں جن کی شان میں اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ۔۔۔۔ نازل ہوئی۔

ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ذیل آیہ۔ المعجم الکبیر طبرانی ۳: ۹۳۔

viii۔ امام حسین علیہ السلام۔ آپ ؑنے ایک شامی سے فرمایا:

کیا تو نے سورۂ احزاب میں اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔ پڑھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ کیا وہ آپ لوگ ہیں؟ فرمایا: ہاں۔

ix۔ وائلہ بن اسقع ۔ ملاحظہ ہو مصنف ابی شیبہ حدیث ۳۲۱۰۳۔ مسند احمد بن حنبل ۴: ۱۰۷

عبداللّٰہ بن جعفر ۔ ملاحظہ ہو المستدرک ۳: ۱۴۸

xi۔ حضرت براء بن عازب۔ المعجم الکبیر طبرانی ۲۳:۳۹۶۔ حدیث نمبر ۹۴۷۔ اس روایت میں آیا ہے: ھؤلاء عترتی و اھلی ۔

xii۔ ابوالحمرا بلال بن حارث مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ مسند ابی شیبہ صفحہ ۲۳۲ حدیث ۷۲۰۔۷۲۲

xiii۔ انس بن مالک۔ مسند احمد بن حنبل ۳: ۱۰۹

xiv۔ زینب بنت ام سلمہ۔ المعجم الکبیر طبرانی ۲۴: ۲۸۱۔ حدیث ۷۱۳

xv۔ معقل بن یسار۔ سنن ترمذی باب مناقب اہل بیت ۔

مخالف روایتیں: صحیح السند متعدد طرق سے ثابت ہے کہ آیۂ تطہیر پنجتن علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ چند ایک متروک السند روایات کا بھی ذکر آتا ہے جو ان صحیح السند روایتوں کے خلاف ہیں۔ ان کا بھی ذکر ضروری ہے:

۱۔ عِکْرمہ: حضرت ابن عباس کا غلام۔ اس بات کا قائل تھا کہ یہ آیت صرف ازواج کی شان میں ہے۔ یہاں تک وہ بازاروں میں اعلان کرتا تھا:

لیس بالذی تذھبون الیہ انما ھو نساء النبی۔

تمہارا نظریہ درست نہیں ہے بلکہ یہ نبی کی ازواج کی شان میں ہے۔

چنانچہ عکرمہ کا اعلان بتاتا ہے کہ اس زمانے میں سب لوگوں کا نظریہ تھا کہ یہ پنجتن علیہم السلام کی شان میں ہے۔

عکرمہ کون ہے؟ یہ حضرت عبد اللہ بن عباس کا غلام اور خارجی تھا اور مغربی عرب میں خارجیت کو اسی نے رواج دیا ہے۔ (۶ تہذیب التہذیب ۷: ۲۶۷) قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، امام مالک اور مصعب الزبیری نے کہا ہے: وہ صفریہ خوارج میں سے تھا۔ اسی نے مغری عرب میں خوارج کے عقائد پھیلائے ( سیر اعلام النبلاء ۳: ۲۰ ۳۶)۔ خوارج کا فرقہ صفریہ تمام غیر خوارج کو کافر سمجھتا ہے لہٰذا عکرمہ، خارجی المذہب ہونے کے اعتبار سے اہل بیت علیہم السلام کا بدترین دشمن تھا۔

اس نے عبد اللہ بن عباس کا غلام ہونے سے فائدہ اُٹھا کر جھوٹی روایات ان کی طرف منسوب کیں یہاں تک کہ ضرب المثل بن گیا۔ چنانچہ عبد اللّٰہ بن عمر اپنے غلام نافع اور سعید المسیب اپنے غلام برد سے کہتے تھے:

لا تکذب علیَّ کما کذب عکرمۃ علی بن عباس۔ ( تہذیب التہذیب ۷: ۲۶۷)

میری طرف جھوٹی نسبت نہ دو جس طرح عکرمہ نے ابن عباس کی طرف نسبت دی ہے۔

حتیٰ کہ حضرت ابن عباس کے صاحبزادے علی بن عبد اللہ نے عکرمہ کو اصطبل کے دروازے پر باندھ کر رکھا تھا۔ عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں: میں نے کہا: کیا تم اپنے غلام کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہو۔ جواب میں کہا: ان ھذا یکذب علی ابی۔ یہ میرے والد کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ۷: ۲۶۸)

اسی لیے اصحاب رجال نے اسے کذاب، خبیث، قلیل العقل کہا ہے۔ ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ۷: ۲۶۷۔ جب عکرمہ مر گیا تو اس کا جنازہ اٹھانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ چار کرایے کے لوگوں سے اُٹھوایا گیا۔ ملاحظہ ہو سیر اعلام النبلاء صفحہ ۳۴۔

دوسرا راوی مقاتل بن سیلمان ہے۔ اس کے بارے میں اصحاب رجال کے یہ الفاظ ہیں: فاسق فاجر ہے۔ خارجۃ اسے جائز القتل سمجھتے تھے۔ وکیع اسے کذاب کہتے تھے۔ ( تہذیب التہذیب ۱۰: ۲۸۰۔۲۸۱) نسائی نے اسے مشہور کذابوں میں شمار کیا ہے۔ ( وفیات الاعیان ۷: ۲۶۸)

۲۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ آیۂ تطہیر ازواج کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس روایت کے راویان میں بعض مجہول ہیں اور بعض کا کتب رجال اور جرح و تعدیل میں کوئی ذکر تک نہیں ہے اور بعض راوی کذاب ہیں۔ اس روایت کے راویان ابا یحییٰ الحمانی اور خصیف کے بارے میں تہذیب التہذیب ۶: ۱۲۰، الکاشف ۱: ۲۸۰ ملاحظہ ہو۔

جب کہ عبد اللہ بن عباس کی صحیح السند روایت میں کہا ہے کہ آیۂ تطہیر پنجتن علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا صحیح السند روایت کے مقابلے میں ان ضعیف اور مجہول الحال و کذاب راویوں کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۳۔ واثلہ بن اسقع کی روایت: واثلہ کی ایک روایت کے آخر میں یہ جملہ بھی آیا ہے : وائلہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: کیا میں بھی اہل بیت میں شامل ہوں؟ تو فرمایا: وانت من اھلی۔ ہاں تو بھی میرے اہل بیت میں سے ہے۔ ( تفسیر طبری ذیل آیہ)

اولاً تو واثلہ کی وہ روایت ہمارے سامنے ہے جس میں یہ آخری جملہ نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو المستدرک ۳:۱۴۷۔ السنن الکبری ۲: ۱۵۲۔ مسند احمد ۴: ۱۰۷ ثانیاً خود واثلہ بن اسقع کی شخصیت ان کی چند ایک دیگر روایات سے سامنے آتی ہے۔

واثلہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الامناء عند اللہ ثلاثۃ: انا و جبرئیل و معاویۃ۔ ( اللئالی المصنوعۃ ۱: ۴۱۷)

اللہ کے نزدیک امین تین ہیں: میں، جبرئیل اور معاویہ۔

۴۔ ام المومنین ام سلمہؓ کی ایک روایت کے آخر میں آیا ہے: ام سلمہ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ مجھے بھی ان کے ساتھ شامل کیجیے تو رسول اللہؐ نے فرمایا: انک من اھلی تو بھی میرے اہل بیت میں شامل ہے۔ ( تفسیر طبری ذیل آیہ)

یہ روایت اس کے راویان موسیٰ بن عقوب اور خالد بن مخلد کی وجہ سے قابل اعتنا نہیں ہیں۔ یہ روایت ان صحیح السند روایات کے خلاف ہے جس میں حضرت ام سلمہؓ کو اہل کساء میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی تھی لہٰذا قابل توجہ نہیں ہے۔

۵۔ اسید الساعدی کی روایت: اس روایت میں کہا ہے کہ رسول اللہؐ نے ابن عباس اور اپنے اوپر ایک چادر ڈال دی پھر فرمایا:

یا رب ھذا عمی و صنوابی وھؤلاء اھل بیتی فاسترھم من النار کسترتی ایاھم بملاء تی ہذہ فامنت اسکفۃ الباب و حوائط البیت فقال آمین و ھی ثلاثا۔ ( الصواعق المحرقہ : ۱۴۴)

اے مالک! یہ میرے چچا، میرے والد کے بھائی ہیں یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو آتش سے ایسے چھپا لے جیسا کہ میں نے اپنی چادر سے چھپایا ہے۔ دروازے کی چوکھٹ اور دیواروں نے تین مرتبہ آمین کہا۔

اس روایت کی سند میں واقع رجال میں محمد بن یونس الکدیمی جعلی حدیث بنانے میں ماہر کذاب ہے۔ ( دلائل النبوۃ بیہقی ۶: ۷۱)

ایک اور سند سے بھی یہ روایت آئی ہے جس کی سند میں عبد اللہ بن عثمان ہے جس کے بارے میں ماہرین رجال کہتے ہیں: یروی احادیث مشتبھۃ یہ مشتبہ احادیث بیان کرتا ہے۔ ( لسان المیزان ۳: ۳۶۸) دیگر بعض نے اسے منکر الحدیث ، بعض نے مجہول کہا ہے۔ ( تہذیب ۵: ۳۷۲)

سب سے اہم یہ کہ اس قسم کی ضعیف روایتیں ان معنوی تواتر سے ثابت احادیث کے خلاف ہیں جن سے اہل البیت کا تعین ہوتا ہے۔

احاطہ خانہ کے اندر، احاطۂ چادر یا گھر کے اندر گھر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کساء (چادر) کو ایک احاطہ اور چار دیواری کی شکل دینے کے بعد اس میں موجود افراد کی طرف اشارہ فرما کر فرمایا:

اللّٰھم ھؤلاء اھل بیتی۔

اے اللہ! یہ ہیں میرے اہل بیت۔

اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قولاً و عملاً اہل بیت کا تعین فرمایا۔

چادر کے احاطے میں لیے بغیر اگر اشارہ فرماتے تو بہت سے لوگ اپنے آپ کو بھی مشار الیہ سمجھنے لگ جاتے کہ ہم بھی تو گھر میں موجود تھے۔ لہٰذا گھر کے اندر ایک گھر بنایا، پھر فرمایا: ھولاء اھل بیتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے سے ہم بھی وہی سمجھیں گے جو ازواج نے سمجھا ہے۔ اگر کساء (چادر) کی احاطہ حد بندی نہ ہوتی اور چادر کے باہر موجود افراد بھی اہل بیت میں شامل ہوتے تو یہ افراد چادر کے اندر داخل ہونے کی خواہش نہ کرتے۔ اس خواہش کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا اس سے اہل بیت کا تعین واضح ہو جاتا ہے۔

۱۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ سے فرمایا:

انک من ازواج النبی۔ ( مشکل الآثار ۱: ۲۳۳۔ تفسیر ابن کثیر جامع الاصول ۱۰: ۱۰۰۔ الدرالمنثور ۵: ۱۹۸)

تمہارا شمار ازواج نبی میں ہوتا ہے۔

۲۔ دوسری روایت کے مطابق ام سلمہؓ سے فرمایا:

انت علی یمکانک انت علی خیر۔

تم اپنی جگہ رہو۔ تو خیر پر ہے۔

۳۔ حضرت عائشہؓ کی روایت میں عائشہؓ نے کہا:

فدنوت منہم فقلت: یا رسول اللہ و انا من اھل بیتک؟ فقال صلی اللہ علیہ وسلم تنحی فانک علی خیر۔ ( تفسیر ابن کثیر ذیل آیت)

جب رسول اللہ نے ھؤلاء اھل بیتی فرمایا تو میں نزدیک چلی گئی اور عرض کیا: کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں؟ حضور نے فرمایا: ایک طرف ہو جا۔ تو خیر پر ہے۔

ازواج کے اہل بیت میں شامل نہ ہونے کے بارے میں جو بات آج کل کے اہل قلم کے لیے مسلم ہے وہ حضرت عائشہؓ کے لیے مسلم نہیں ہے اور سوال کرنے پر حضور نے تنحی ایک طرف ہو جاؤ فرما کر بات واضح فرمائی۔

حضرت زید بن ارقمؓ سے سوال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کون لوگ ہیں؟ کیا ان سے مراد ان کی ازواج ہیں؟ انہوں نے کہا:

لا، وایم اللہ ان المراۃ تکون مع الرجل العصر من الدھر ثم یطلقھا فترجع الی ابیھا و قومھا، اھل بیتہ اھلہ و عصبتہ الذین حرموا الصدقۃ بعدہ۔ ( صحیح مسلم باب فضائل علی )

نہیں اللہ کی قسم! بیوی تو ایک مدت تک مرد کے ساتھ رہتی ہے، پھر اسے طلاق دی جاتی ہے تو اپنے باپ اور قوم کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔ ان کے اہل بیت ان کے اہل اور قبیلہ کے رشتہ دار ہیں جن پر ان کے بعد صدقہ حرام ہے۔

مسند احمد ۵: ۲۹۲ کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا: میں نے بھی داخل ہونے کے لیے چادر اٹھائی تو حضور نے چادر میرے ہاتھ سے چھین لی اور فرمایا: انک علی خیر۔

۴۔ اس سے زیادہ صراحت حضرت ام سلمہؓ کی اس خواہش میں ہے۔ فرماتی ہیں:

فقلت یا رسول اللہ انا من اھل البیت فقال: ان لک عند اللہ خیراً فوددت انہ قال نعم فکان احب الی مما تطلع الشمس و تغرب۔ ( مشکل الآثار ۱:۲۳۶)

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی اہل بیت میں شامل ہوں؟ فرمایا: تیرے لیے اللہ کے ہاں خیر ہے۔ ام سلمہ فرماتی ہیں: میری خواہش تھی کہ آپ ہاں فرما دیں۔ تب یہ بات میرے لیے ہر اس چیز سے بہتر تھی جس پر سورج طلوع اور غروب کرتا ہے۔

حضرت ام سلمہؓ کے اس جملے میں ان لوگوں کا جواب ہے جو انت علی خیر کا یہ مفہوم لیتے ہیں: تم تو ہو ہی خیر پر۔

یہ لوگ کہتے ہیں:

ان میں سے بعض روایات میں جو یہ بات آئی ہے کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کو نبی نے اس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحاب کو لیاتھا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے گھر والوں سے خارج قرار دیا تھا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی، کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں۔ اس لیے آپؐ نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی، نہ کہ ازواج مطہرات کے حق میں۔۔۔۔ ( تفہیم القرآن )

۵۔ ان سب سے زیادہ صراحت براء بن عازب کی روایت میں ہے جس میں حضور ؐنے فرمایا:

ھؤلاء عترتی و اھلی فاذھب عنہم الرجس۔ (ملاحظہ ہو المعجم الکبیر طبرانی ۲۳: ۳۹۶ حدیث نمبر ۹۴۷۔ کامل ابن عدی ۷: ۳۳۴ راوی نمبر ۱۶۶۳ااھ)

یہ ہیں میری عترت اور اہل ان سے پلیدی کو دور فرما۔

اس حدیث نے کسی قسم کی تاویل و توجیہ کے لیے گنجائش ختم کر دی چونکہ اہل بیت کو عترت کے ساتھ مربوط کرنے کی صورت میں غیر عترت ان میں شامل نہیں ہیں۔

۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں وہ صراحت موجود ہے جس کے بعد منکر کے علاوہ کسی اور کے لیے توجیہ و تاویل کا کوئی جواز نہیں ہے۔ فرمایا:

نزلت ھذہ الایۃ فی خمسۃ فِیَّ و فی علی و حسن و حسین و فاطمہ انما یرید اللہ۔۔۔ ( تفسیر ابن کثیر ذیل آیت۔ تفسیر طبری ذیل آیہ۔ الدرالمنثور ۵: ۱۹۸۔ تفسیر ابن ابی حاتم ذیل آیت۔)

یہ آیت پانچ ہستیوں کی شان میں ہے۔ میری، علی، حسن اور حسین اور فاطمہ کی شان میں ہے۔

۷۔ عبد اللہ بن جعفر کی روایت میں آیا ہے:

اللّٰھم ھؤلاء آلی فصل علی محمد وآل محمد۔ (ملاحظہ ہو المستدرک ۲:۱۴۷۔ قال الحاکم ھذا حدیث صحیح الاسناد۔)

اے اللہ! یہ میری آل ہیں۔ محمد اور آل محمد پر درود بھیج۔

دو اہم دلائل: آیت تطہیر کے تحت اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ازواج کے شامل نہ ہونے پر گزشتہ احادیث کی روشنی میں دو اہم دلائل اور موجود ہیں:

پہلی دلیل: پہلی دلیل احادیث میں موجود وہ جملے ہیں جن میں ازواج کو دور، اپنی جگہ رہنے کا حکم دیا گیا اور صریح لفظوں میں اہل بیت علیہم السلام کا تعین فرمایا۔

پہلا جملہ: تنحیّ ایک طرف ہو جاؤ ہے۔ حافظ ابن کثیر نے امام احمد بن حنبل سے روایت کی ہے:

جب حضورؐ علی اور حضرت فاطمہ، ام سلمہ کے ہاں گھر میں داخل ہونا چاہتے تھے اس موقع پر حضورؐ نے حضرت ام سلمہؓ سے فرمایا: قومی فتنحی عن اھل بیتی۔ اٹھو میرے اہل بیت سے ایک طرف ہو جاؤ۔ ( تفسیر ابن کثیر ذیل آیت)

حضرت عائشہؓ خود روایت کرتی ہیں:

میں قریب گئی اور کہا: اے رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں؟ اس پر رسول اللہ ؐنے فرمایا: تنحی فانک علی خیر۔ تم ایک طرف ہو جاؤ۔ تم خیر پر ہو۔ ( تفسیر ابن کثیر ذیل آیت)

دوسرا جملہ: انتِ من ازواج النبی۔ تیرا شمار ازواج نبی میں ہوتا ہے۔ حضرت ام سلمہؓ نے حضور ؐ سے سوال کیا: کیا میں اہل بیت سے نہیں ہوں؟ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ازواج نبی سے ہے۔ یعنی اہل بیت سے نہیں ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر و تفسیر طبری )

تیسرا جملہ: اللّٰھم ھؤلاء اھل بیتی و خاصتی: اے اللہ! یہ ہیں میرے اہل بیت اور میرے خاص افراد۔

متعدد مصادر میں ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات علی، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کو کساء کے نیچے بٹھا کر فرمایا: اے اللہ! یہ ہیں میرے اہل بیت اور میرے خاص افراد۔ ( تفسیر طبری ذیل آیت۔ تفسیر ابن ابی حاتم ذیل آیت)

چوتھا جملہ: مکانک جہاں ہو، وہیں رہو۔ حضرت ام سلمہؓ کی چند ایک روایات میں یہ جملہ آیا ہے

کہ جب ام سلمہؓ نے کساء میں داخل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مکانک جہاں ہو، وہیں رہو۔ یعنی اہل بیت میں شامل ہونے کی توقع نہ رکھو۔ ( تفسیر طبری۔ تفسیر قرطبی )

پانچواں جملہ: فوددت انہ قال نعم فکان احب الی مما تطلع الشمس وتغرب۔ حضرت ام سلمہؓ کی ایک روایت میں آیا ہے:

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی اہل بیت سے ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لک عند اللہ خیراً۔ تیرے لیے اللہ کے ہاں خیر ہے۔ یہ جواب سن کر حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں: میری خواہش تھی آپ ہاں فرمائیں۔ تب یہ بات میرے لیے ہر اس چیز سے بہتر تھی جس پر سورج طلوع اور غروب کرتا ہے۔

چھٹا جملہ: ھؤلاء عترتی واھلی۔ حضرت براء بن عازب کی روایت میں ہے کہ اصحاب کساء کو کساء میں جمع کرنے کے بعد فرمایا: ھؤلاء عترتی واھلی۔ یہ میری عترت اور میرے اہل ہیں۔ ظاہر ہے عترت کی تعبیر کے بعد ازواج کی اہل بیت میں شمولیت کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔ حضرت براء بن عازب کی روایت ملاحظہ ہو: المعجم الکبیر طبرانی ۲۳: ۳۹۶ حدیث نمبر۹۴۷ وغیرہ۔

ساتواں جملہ: اللھم ھولاء آلی۔ اے اللہ یہ میری آل ہیں۔ یہ روایت حضرت عبد اللّٰہ بن جعفر کی ہے۔ ملاحظہ ہو المستدرک ۲: ۱۴۷۔ مؤلف نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ آل محمد کون ہیں اسے سمجھنے کے لیے آل ابراہیم کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ چونکہ درود میں آل محمد کو آل ابراہیم کے ساتھ مقرون کیا گیا ہے۔ اللّٰھم صلی علی محمد و آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم۔

آٹھواں جملہ: فجذبہ من یدی: رسولؐ نے چادر میرے ہاتھ سے کھینچ لی۔ حضرت ام سلمہؓ کی ایک روایت میں یہ جملہ مذکور ہے۔ چنانچہ آپ فرماتی ہیں:

فرفعت الکساء لا دخل معھم فجذبہ من یدی وقال: انک علی خیر۔ ( مسند احمد ۳: ۲۹۲ اور ۳۲۳)

میں نے چادر اٹھائی تاکہ میں بھی ان میں داخل ہو جاؤں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر میرے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا تم خیر پر ہو۔

دوسری دلیل: انتہائی قابل توجہ ہے۔ اپنے اہل بیت کے تعین کے لیے ممکنہ تمام اہتمامات کے ساتھ نص صریح قائم فرمانے کے بعد مستقبل بعید پر نگاہ رکھنے والے رسول برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو مزید راسخ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی اختیار فرمائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے لمحہ فکریہ ہے:

ششماہہ دورانیہ: وہ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مدت تک روزانہ ہر نماز کے وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر تشریف لے جاتے اور فرماتے:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اہل البیت! اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔

۱۔حضرت ابن عباس کہتے ہیں: میں نو ماہ تک رسول اللہ ؐکے ساتھ یہ دیکھتا رہا کہ آپؐ ہر نماز کے وقت دروازہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جا کر اسی آیت کی تلاوت کرتے رہے۔ ( الدر المنثور ۵:۳۷۸)

۲۔ ابوبرزہ راوی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سترہ ماہ تک نماز پڑھتا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر دروازہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جا کر السلام علیکم فرماتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے۔ ( مجمع الزوائد باب فضل اہل البیت )

۳۔ انس بن مالک راوی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ ماہ تک صبح کی نماز کے وقت باب فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جا کر فرماتے رہے: الصلوۃ یا اھل البیت! اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ۔۔۔۔ ( صحیح الترمذی ۵: ۳۲۸۔ مسند احمد بن حنبل ۲: ۲۰۹۔ المستدرک ۳: ۱۵۸)

۴۔ ابوالحمراء سے روایت ہے:

حفظت من رسول اللہ ثمانیۃ اشہر بالمدینۃ لیس من مرۃ یخرج الی صلوۃ الغداۃ الا اتی علی باب علی فوضع یدہ علی جبنتی الباب ثم قال: الصلوۃ الصلوۃ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔

مجھے یاد ہے کہ آٹھ ماہ تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہؐ صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکلے ہوں اور دروازۂ علی پر نہ آئے ہوں اور دروازے کے چوکھٹوں پر ہاتھ رکھ کر یہ نہ فرمایا ہو: الصلوۃ الصلوۃ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔

بعض دیگر روایات میں یہ مدت سترہ ماہ اور انیس ماہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو تفاسیر ابن کثیر، طبری ذیل آیہ۔ اسد الغابہ ، مشکل الآثار وغیرہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے قائم ان نصوص اور صراحتوں کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے تعین میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔

اہل بیت رسولؐ کے مصداق کا تعین

اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعین میں کوئی دشواری درپیش نہیں ہے۔ حیات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت سے مواقع ایسے آئے ہیں جن میں بلا نزاع اہل بیت علیہم السلام کا تعین ہوگیا ہے۔ بعنوان مثال درجہ ذیل مواقع قابل مطالعہ ہیں:

۱۔ مباہلہ: تقریباً تمام مفسرین، مورخین اور محدثین نے لکھا ہے کہ مباہلہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہمراہ حضرت علی، حضرت فاطمہ و حسنین علیہم السلام کو لیا اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی ابناء کے ساتھ نسآء کا ذکر آیا ہے وہاں نسآء سے مراد بیٹیاں ہیں۔ جیسے: وَ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۶)

۲۔ آیت مؤدت: قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔۔۔۔ (۴۲ شوری: ۲۳) اس آیت کے شان نزول میں ابن تیمیۃ تک کو اعتراف ہے کہ الۡقُرۡبٰی سے مراد علی، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام ہیں۔

۳۔ حالت جنابت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے بھی اہل بیت کا تعیّن ہوتا ہے۔ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الا ان مسجدی حرام علی کل احائض من النسآء وکل جنب من الرجال الا علی محمد و اہل بیتہ علی و فاطمۃ والحسن والحسین۔ ( السنن الکبریٰ ۷: ۶۵۔ الغدیر ۳: ۲۱۲)

آگاہ رہو! بے شک میری مسجد میں عورتوں میں سے حائض اور مردوں میں سے ہر مجنب شخص کا آنا حرام ہے سوائے محمد اور ان کے اہل بیت علی، فاطمہ اور حسن و حسین کے۔

۴۔ عترتی اہل بیتی: اہل بیت کے تعین کے لیے ایک اہم دلیل وہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات میں جملۂ اہل البیت کے ساتھ عترتی کا توضیحی لفظ شامل فرمایا۔

سیاق و سباق: گزشتہ صحیح الاسناد احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ آیت صرف اہل بیت علیہم السلام یعنی رسول کریمؐ، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت امام حسن و حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے یہ بات از خود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیت دوسری آیات سے جدا نازل ہوئی ہے۔

ثانیاً سیاق آیات لفظاً و معناً ایک نہیں ہے۔ چنانچہ ازواج کے لیے جمع مؤنث کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور آیۃ تطہیر میں جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

معنی میں ایک جیسا لہجہ کلام نہیں ہے بلکہ آیت میں ازواج کے لیے تنبیہ کا لہجہ ہے۔ ازواج سے فرمایا:

وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی۔۔۔

اپنے گھروں میں ٹک کر کے بیٹھی رہو اور جاہلیت اولیٰ کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرو۔

اہل بیت اطہار علیہم السلام کے لیے تطہیر کا مژدہ، انداز تخاطب میں واضح فرق اہل خرد کے لیے دعوت فکر ہے۔

نیز سیاق سے استدلال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات ثابت ہو کہ یہ آیات ایک ساتھ اور ایک مناسبت سے نازل ہوئی ہیں جب کہ گزشتہ صحیح الاسناد روایات سے تو یہ ثابت ہے کہ آیہ تطہیر جدا نازل ہوئی ہے۔

۱۔ چنانچہ ابو المحاسن حنفی اپنی کتاب معتصر المختصر ۲: ۲۶۷ میں آیت تطہیر کے استقلال کے بارے میں لکھتے ہیں:

والکلام لخطاب ازواج النبی ثم عند قولہ: وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ و قولہ تعالی:اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ استئناف تشریفاً لاھل البیت و ترفیعاً لمقدارھم الا تری انہ جاء علی خطاب المذکر فقال: عَنْكُمُ و لم یقل عنکن فلا حجۃ لاحد فی ادخال الازواج فی ھذہ الایۃ یدل علیہ ما روی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کان اذا اصبح اتی باب فاطمۃ فقال: السلام علیکم اھل البیت! اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔

ازواج سے خطاب کا کلام وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ پر ختم ہوگیا اور ِاِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ نیا کلام ہے۔ اس میں اہل البیت کے لیے شرافت اور ان کی قدر و منزلت کی بلندی کی بات ہے۔ چنانچہ یہ بات آپ کے سامنے ہے کہ اس میں مذکر سے خطاب کا طرز آیا اور فرمایا عَنۡکُمُ اور عنکنّ نہیں فرمایا۔ لہٰذا ازواج کو اہل بیت میں داخل کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فاطمہ کے دروازے پر تشریف لاتے اور فرماتے : السلام علیکم اھل البیت! اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔

سوال: پھر یہ آیت ازواج کے ذکر کے درمیان کیوں ہے؟

جواب: ہم نے مقدمہ میں ترتیب آیات اور ترتیب نزول کے بارے میں لکھا ہے اس کا یہاں دوبارہ ذکر دیتے ہیں:

یہ بات ایک واضح حقیقت ہے کہ موجودہ قرآن میں آیات جس ترتیب سے درج ہیں وہ ترتیب نزولی کے مطابق نہیں کیونکہ:

ترتیب نزولی، وقت نزول کے تقاضوں کے مطابق ہے اور ترتیب قرآن، نظام قرآن کے تقاضوں کے مطابق ہے۔

اس کی وضاحت کے سلسلے میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ شروع میں شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کے لیے ایک سال کی عدت واجب تھی اور پورا سال شوہر کے گھر سے نکلنا جائز نہ تھا نیز عورت کو شوہر سے میراث میں صرف ایک سال کا خرچہ ہی ملتا تھا۔ اس کا حکم اس طرح نازل ہوا:

وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۴۰)

اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک انہیں (نان و نفقہ سے) بہرہ مند رکھا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں۔

مذکورہ بالا آیت کا حکم اسی سورہ کی اس سے پیشتر آنے والی ایک آیت کے ذریعے منسوخ ہو گیا جس میں ارشاد فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۳۴)

اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں۔

یہاں ترتیب نزولی کے مطابق پہلی آیت بعد میں نازل ہوئی کیونکہ یہ ناسخ ہے مگر قرآنی ترتیب میں ناسخ کا ذکر پہلے اور منسوخ کا ذکر بعد میں ہے۔

۲۔ ابن عباس، سدی، جبائی اور بلخی کے مطابق آیہ : اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۳) کے بعد کوئی فرض حکم نازل نہیں ہوا اور حضرت محمد باقر اور حضرت جعفر صادق علیہما السلام سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ سدی کے الفاظ یہ ہیں:

لم ینزل بعدھا حلال و لاحرام۔ ( سیوطی الدرالمنثور ۲: ۲۵۹)

اس آیت کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔

حالانکہ اب یہ آیت سورہ مائدہ میں درج ہے اور اس کے بعد بے شمار آیات احکام موجود ہیں۔

۳۔ اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۵۸) صلح حدیبیہ کے بعد اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کے لیے حج کرنا ممکن ہوا۔ جب کہ یہ آیت سورۂ بقرہ میں درج ہے جو کہ مدینے میں نازل ہونے والا سب سے پہلا سورہ ہے۔

۴۔ وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا تُرۡجَعُوۡنَ فِیۡہِ اِلَی اللّٰہِ۔ بقولے سب سے آخر میں اتری ہے اور اگر سب سے آخر میں نہیں تو اواخر میں یقینا ہے۔ جب کہ اب یہ آیت سورہ بقرہ کی ۲۸۱ ویں آیت ہے۔

لہٰذا موجودہ نظام قرآن کے بارے میں سنت ثابتہ کی طرف سے آنے والی وضاحت ہی حجت ہے۔ اس کی موجودگی میں سیاق کا انعقاد نہیں ہوتا۔

سیاق و سنت ثابتہ: ہم اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ یہ آیات ایک ساتھ ایک ہی مناسبت میں اور ایک ہی جگہ نازل ہوئی ہیں تو اگر سنت ثابتہ قرآن کے سیاق کے مطابق نہ ہو تو اس صوررت میں سنت ثابتہ سیاق پرمقدم ہے چونکہ سیاق سے تو بظاہر معنی سمجھا جاتا ہے جب کہ سنت ثابتہ سے صراحت کے ساتھ سمجھا جاتا ہے اور ظاہر پر صراحت مقدم ہے۔ چنانچہ ہم نے پہلے بھی اس کا ذکر کیا ہے: فتقدم السنہ علی السیاق تقدم النص علی الظہور۔ چونکہ سنت مفسر کتاب اور مبین رموز قرآن ہے لہٰذا سنت بعنوان مفسر و مبین، ظہور پر مقدم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ قرآن کے ظہور سے ہم نے جو کچھ سمجھا ہے ہماری سمجھ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم مقدم ہے۔ ورنہ اگر سنت سے ہٹ کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس صورت قرآن اس کشتی کے مانند ہو کر رہ جائے گا جس کا ناخدا نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر قرآن کو سنت ثابتہ کی روشنی میں سمجھنے کو گوارا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اپنی سمجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سمجھ پر مقدم کیا ہے۔ فافھم ذلک ۔

ہمارا فہم مقدم ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا؟: سیاق سے جو ظاہری معنی سمجھ میں آتا ہے وہ ہماری سمجھ ہے اور آیت کی تشریح جو سنت ثابتہ میں موجود ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فہم ہے۔ کوئی مسلمان اس بات کی جرأت نہیں کرے گا کہ رسولؐ کے فہم پر اپنے فہم کو مقدم قرار دے۔ نہ ہی کوئی مسلمان احادیث رسولؐ کو نظر انداز کر سکے گا۔ لہٰذا اہل البیت کی تشریح جو رسول اللہؐ نے فرمائی ہے اسے تسلیم کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ البتہ ناصبی ان احادیث کو تسلیم نہیں کرے گا چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اٹل فیصلہ ہے: مؤمن علی سے بغض نہیں رکھے گا اور منافق علی سے محبت نہیں کرے گا۔

واضح رہے جنہیں عصر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں منافق کہتے تھے، انہیں عصر علی علیہ السلام میں خوارج اور ہمارے زمانے میں ناصبی کہتے ہیں۔

ذوق سلیم۔ فہم سلیم: ایسے علماء کی بھی کمی نہیں جن کا فہم و ذوق کسی قسم کے تعصب کی وجہ سے مجروح نہ ہوا۔ چنانچہ اہل سنت کے قدیم اور متاخرین جلیل القدر علماء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اہل بیت سے مراد کون ہیں۔ ہم ذیل صرف چند ایک علمائے سلف کی تصریحات پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ ابو جعفر طحاوی متوفی ۳۲۱ ھ کہتے ہیں:

ان المرادین بما فیھا ھم رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم و علی و فاطمہ و حسن و حسین دون من سواھم۔ ( مشکل الآثار ۲: ۲۶۹ حدیث نمبر۶۵۵ کے ذیل میں۔)

اس آیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی مراد نہیں ہے۔

۲۔ ابوبکر نقاش متوفی ۳۵۱ ھ آیت تطہیر کے بارے میں لکھتے ہیں:

اجمع اکثر اھل التفسیر انھا نزلت فی علی و فاطمۃ والحسن والحسین صلوات اللہ علیہم۔ ( مقریزی فضل آل البیت ـ صفحہ ۷۵)

اکثر اہل تفسیر کا اجماع ہے کہ یہ آیت علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین صلوات اللہ علیہم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

۳۔ ابوبکر شافعی متوفی ۳۵۴ ھ اپنی کتاب الفوائد میں لکھتے ہیں:

و اھل البیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و علی و فاطمہ و الحسن و الحسین۔ ( الفوائد الغیلانیات ۳: ۲۶۴ حدیث ۲۵۹)

اور اہل بیت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم، علی ، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔

۴۔ اجری بغدادی متوفی ۳۶۰ ھ کتاب الشریعۃ ۴: ۷۴ میں تصریح کرتے ہیں:

وھم علی و فاطمۃ والحسن و الحسین رضی اللہ عنھم۔

اور وہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔

۵۔ حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵ ھ آیت تطہیر کے شان نزول کے بارے میں بعض احادیث جو مسلم اور بخاری کی شرط کے مطابق صحیح ہیں، نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

انّما خرجتہ لیعلم المستفید ان اہل البیت والآل جمیعاً ھم۔ ( المستدرک ۳: ۱۴۸)

میں نے ان احادیث کو اس کے لیے بیان کیا تاکہ ان سے استفادہ کرنے والا یہ جان لے کہ اہل بیت اور آل صرف یہی لوگ ہیں۔

۶۔ ابن عساکر دمشقی شافعی متوفی ۵۷۱ ھ اپنی کتاب الاربعین فی مناقب امہات المؤمنین میں پنجتن علیہم السلام کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

و الایۃ نزلت خاصۃ فی ھؤلاء المذکورین واللہ اعلم۔

یہ آیت صرف مذکورہ ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ واللہ اعلم۔

۷۔ شمس الدین ذھبی متوفی ۷۷۸ ھ تاریخ الاسلام ۱: ۳۷۲ میں لکھتے ہیں:

۸۔ نظام الدین نیشاپوری متوفی ۷۲۸ ھ اپنی کتاب غرائب القرآن میں تصریح کرتے ہیں:

آیت مباہلہ و آیت تطہیر علی، فاطمہ اور حسنین کی شان میں نازل ہوئی۔

۱۔ علامہ الشیخ حسن بن علی السقاف، البانی کی اس بات کے جواب میں کہ شیعہ کا اس آیت کو علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے ساتھ تخصیص کرنا اور ازدواج کو خارج سمجھنا ان کی طرف سے ان آیات کی تحریف ہے۔ لکھتے ہیں:

البانی کی یہ بات سنت رسولؐ کو رد کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے شبہات اور کج روی میں سے ہے۔ اہل البیت کی تشریح میں موجود سنت رسولؐ کی رد کے لیے وہ قاری کو یہ دھوکہ دینا چاہتا ہے جو اہل کساء کو ہی اہل البیت مانتا ہے وہ شیعہ ہے۔ جب کہ حق یہ ہے کہ تمام اہل سنت اسی بات کے قائل ہیں۔ ان سے پہلے خود رسولؐ جو لاینطق عن الہوی ہیں اسی بات کے قائل ہیں لیکن ناصبیت نے البانی کے لیے رد حدیث کو سجایا ہے۔ (صحیح شرح العقیدۃ الطحاوی: ۶۵۵)

معجم الفاظ القرآن الکریم۔ مجمع اللغۃ العربیہ کی طرف سے ترتیب دی گئی اس کتاب کے جلد اول صفحہ ۱۳۸ میں البیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اہل بیت الرجل اسرتہ و اطلق فی القران اھل البیت علی اسرۃ ابراھیم و تعورف فی الاستعمال اھل البیت لآل المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔

انسان کے اہل بیت کے معنی انسان، اس کا خاندان ہے اور قرآن میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم کے خاندان کے لیے استعمال ہوا ہے اور آل مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اہل بیت کا استعمال متعارف ہے۔

علامہ ابوبکر حضرمی رشفۃ الصادی الباب الاول میں لکھتے ہیں:

والذی قال بہ الجماھیر وقطع بہ اکابر الائمۃ وقامت بہ البراہین و تظافرت بہ الادلۃ ان اھل البیت المرادین فی الایۃ ہم سیدنا علی و فاطمۃ و ابناھما و ما تخصیصہم بذلک منہ صلی اللہ علیہ وسلم الا عن امر۔

جس بات کا جمہور قائل ہے اور اکابر ائمہ نے جس پر یقین کیا ہے اور جس بات پر براہین قائم ہیں اور دلائل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے اہل البیت سے مراد سیدنا علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم خاص سے ہی ان کومخصوص کیا ہے۔

آگے لکھتے ہیں:

مؤلف روح البیان نے جو کہا ہے کہ اہل بیت سے صرف پنجتن مراد لینا شیعہ نظریہ ہے، صرف زور گوئی ہے چونکہ کتب احادیث اور کتب اہل سنت میں جو کچھ ہے وہ چشم بینا رکھنے والوں کے لیے کافی ہے۔

علامہ شوکانی ان لوگوں کی رد میں لکھتے ہیں جو کہتے ہیں یہ آیت ازواج کے بارے میں ہے:

ویجاب عن ھذا بانہ و رد بالدلیل الصحیح انھا نزلت فی علی و فاطمہ و الحسنین۔ ( ارشاد الفحول البحث الثامن من المقصد الثالث )

اس کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ صحیح دلیل وارد ہے کہ یہ آیت علی، فاطمہ اور حسنین کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

علامہ سمہودی جواہر العقدین باب اول میں لکھتے ہیں:

وھولاء ھم اہل الکساء فہم المرادین من الایتین الباھلۃ والتطھیر۔

ان سے مراد اہل کساء ہیں اور آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر سے یہی حضرات مراد ہیں۔

علامہ ابو منصور ابن عساکر اپنی کتاب الاربعین فی مناقب امہات المؤمنین میں ام سلمہؓ کی روایت کے بعد لکھتے ہیں

اہل البیت سے مراد رسول اللہ علی فاطمہ حسن اور حسین ہیں۔

علامہ سید محمد حبسوس شرح الشمائل میں حدیث کے ذکر کے بعد اہل کساء کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وفی ذلک اشارۃ الی انہم المراد باھل البیت فی الآیۃ۔

اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہی ہستیاں ہی اہل البیت سے مراد ہیں۔

جناب توفیق ابو علم نے اپنی کتاب اہل البیت میں عبدالعزیز بخاری کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے:

وقد اوضحنا بما لا مزید علیہ ان المقصود من اھل البیت ھم العترۃ الطاھرۃ لا الازواج۔

ہم نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ مزید کی ضرورت نہیں ہے کہ اَہْلَ الْبَيْتِ سے مراد عترت طاہرین ہیں، نہ کہ ازواج۔

علامہ ابن الجوزی اس بات کا جواب دیتے ہیں کہ اس آیت میں مذکر کا صیغہ کیسے استعمال ہوا؟:

اول یہ کہ اہل البیت علیہم السلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں لہٰذا تغلیباً مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آیت علی، حسن و حسین علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ (زاد المسیر ۶: ۳۸۱)

طحاوی حضرت ام سلمہؓ سے حدیث کساء کی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

ان روایات میں جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ حضرت ام سلمہ سے فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام سلمہ اس آیت میں شامل نہیں ہیں اور اس سے مراد رسول اللہؐ، علی، فاطمہ حسن و حسین علیہم السلام ہیں، نہ کہ دوسرے۔ (تحفۃ الاخیار بترتیب شرح مشکل آلاثار ۸: ۴۷۶)

ابوالمحاسن علامہ یوسف بن موسی الحنفی صحیح شرح العقیدہ الطحاویۃ صفحہ ۶۵۵ میں فرماتے ہیں:

ازواج کے لیے خطاب وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ پر ختم ہو گیا اور اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ سے نئے سرے سے خطاب، اہل البیت کے لیے دستور بیان کرنے، ان کی شان کی بلندی کا ذکر کرنے کے لیے ہے۔ اسی لیے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا اور عنکم فرمایا عنکن نہیں فرمایا۔ لہٰذا ازواج کو داخل کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ازواج کے داخل نہ ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر جاکر السلام علیکم اہل البیت فرمایا کرتے تھے۔

جناب مولانا ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب مفتی رشید احمد کی رد میں لکھتے ہیں:

بہر حال اصل موضوع سے متعلق عرض ہے کہ حضرت مولانا (مفتی رشید احمد) نے علیؓ، حسنؓ، حسینؓ اور فاطمہؓ کو اہل بیت میں شامل کرنے والوں کو ملحد قرار دیا ہے اور یہ جو انہوں نے فرمایا ہے کہ شیعہ، خانوادۂ نبویؐ کے ان اولین افراد کو اہل بیت کہتے ہیں، یہ بڑی افسوس ناک غلط بیانی ہے۔ ہم نے اس مقالے کے ابتدا ہی میں امام طبری و حافظ ابن کثیر کی تفاسیر سے متعدد احادیث نقل کی ہیں جن میں سورۂ احزاب کی آیت تطہیر کی تفسیر میں اہل بیت کا اطلاق صرف حضرات فاطمہ، علی، حسن، حسین اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہے تو کیا اہل سنت کے یہ دونوں امام و محدث و مفسر بھی شیعہ تھے؟ حیف صد حیف کہ سنت کا دعویٰ کرنے والے احادیث نبوی کو اس طرح جھٹلا رہے ہیں۔ (ناصبیت تقدس کے بھیس میں ص ۲۲)

مولانا ڈاکٹر سید رضوان ندوی صاحب اسی رسالہ کے صفحہ ۲۷ پر لکھتے ہیں:

اور پھر جہاں تک احادیث کا تعلق ہے اور جن سے ہم ناصبی فکر کے خلاف کافی ثبوت پیش کر چکے ہیں ان میں ایک بدیہی ثبوت یہ ہے کہ حدیث کے انتہائی مشہور متداول اور مستند مجموعے مشکوۃ میں کتاب المناقب کا ایک باب ہے: باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اس کے فوراً بعد ایک دوسرا باب: باب مناقب ازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ اگر ازواج النبی ہی اہل البیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہوتیں تو ازواج النبی علیہ الصلوۃ والسلام کے نام سے ایک علیحدہ باب کی کیا ضرورت تھی؟ ذرا غور کریں۔ مزید کہ مناقب اہل النبی علیہ الصلوۃ والسلام کے تحت جتنی احادیث مشکوۃ میں درج ہیں خواہ علی حدہ علی حدہ امام بخاری و مسلم کی ہوں، خواہ متفق علیہ ہوں، خواہ ترمذی و دیگر کتب حدیث سے منقول ہوں، ان سب میں حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ و حضرات حسنینؓ کے مناقب مذکور ہیں، ازواج مطہرات کے نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم کی حدیث میں ہے کہ حقیقی اہل بیت خاندان نبوی کے افراد ہیں۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَہُوَشَہِيْدٌ۔ (۵۰ ق:۳۷)


آیت 33