آیت 32
 

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾

۳۲۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو نرم لہجے میں باتیں نہ کرنا، کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کی سیرت و کردار کے اثرات دیگر خواتین کی طرح نہیں ہیں۔ ازواج کی سیرت دیگر خواتین کے لیے نمونۂ عمل ثابت ہوتی ہے جب کہ دیگر خواتین کی سیرت و کردار ان کی ذات تک محدود رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے لیے ثواب و گناہ بھی دوگنا ہوتا ہے۔

۲۔ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ: اگر تقویٰ اختیار کیا گیا تو ازواج، امت کی دیگر خواتین کی طرح نہیں ہیں۔ ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کے تقویٰ کے اثرات زیادہ ہیں۔ اگر تقویٰ اختیار نہ کیا جائے تو یہ امتیاز حاصل نہ ہو گا۔

۳۔ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ: دیگر خواتین کی طرح نہ ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح نرمی اور ناز کے ساتھ بات نہ کرو۔ کمزور ایمان لوگوں کے دلوں میں بری خواہش نہ آئے۔ یہ حکم دیگر خواتین کے لیے بھی ہے تاہم ازواج رسول کے لیے مزید تاکید کے ساتھ ہے۔

۴۔ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا: لوگوں سے اسلامی اور معاشرتی عرف کے مطابق بات کرو۔ انداز گفتگو میں اس قدر شیرینی نہ ہو کہ مغلوب شہوت مرد کی توقعات اور جذبات برانگیختہ ہو جائیں۔ اس سے ایسی شعری و نثری گفتگو عورتوں پر حرام ہے جس سے سننے والے مردوں کے جذبات بیدار ہوتے ہوں۔

اہم نکات

۱۔ نامحرم مردوں سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۲۔ کسی فساد میں پڑنے کے لیے پہلے اشارے عورتوں کی طرف سے ملتے ہیں۔

۳۔ اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے بنیادی کردار عورت کو ادا کرنا ہے۔


آیت 32