آیت 227
 

اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا ؕ وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ﴿۲۲۷﴾٪

۲۲۷۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور کثرت سے اللہ کو یاد کریں اور مظلوم واقع ہونے کے بعد انتقام لیں اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے۔

تفسیر آیات

البتہ اسلام فن شعری کے خلاف نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْراً ۔ ( الفقیہ ۴: ۳۷۹)

کبھی شعر حکمت پر مشتمل ہوتا ہے اور بیان میں جادو ہوتا ہے۔

۱۔ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اگر شعراء ایمان اور عمل صالح والے ہیں تو ان میں وہ تین باتیں نہ ہوں گی جو غیر مؤمن شعراء میں ہیں۔ وہ عمل صالح بجا لانے والے ہوں گے۔ اس لیے اپنے اشعار کو وہ عمل صالح کے لیے استعمال کریں گے۔

۲۔ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا: ان کے اشعار ان کو ذکر خدا سے غافل کرنے کا سبب نہیں بنتے بلکہ ذکر خدا کا سبب بنتے ہیں کہ وہ اپنے اشعار کو اللہ کی رضا کے لیے مختص کر تے ہیں۔

۳۔ وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا: اپنے اشعار کو ظالموں سے انتقام لینے کا ذریعہ بنائیں۔ مظلوم واقع ہونے کے بعد اگر ضرب سنان ممکن نہ ہو تو ضرب لسان بہترین ذریعہ ہے ظالموں سے انتقام لینے کا:

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ۔۔۔۔ (۴ نساء:۱۴۸)

اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو

چنانچہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ان شعراء کی قدر کرتے تھے جو اہل بیت کی مدح اور دشمنان اہل بیت کی ہجو میں شعر کہتے تھے۔ چنانچہ لوگ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل میں شعر کہتے ہیں اور ان کے مصائب کے سلسلے میں مرثیہ کہتے ہیں۔ وہ سب وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا کے مصداق میں شامل ہوں گے البتہ ایمان و عمل صالح اور ذکر خدا کے ساتھ ہوں، ان کی جگہ نہ ہوں جیسا کہ بعض ناداں خیال کرتے ہیں۔

۴۔ وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا: اس میں عصر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرکین کے بارے میں اور بعد میں آنے والے ہر ظالم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ایک کلی قانون کی طرف اشارہ ہے کہ ظالم کا انجام بہت برا ہو گا:

یَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَی الظَّالِمِ اَشَدُّ مِنْ یَوْمِ الظَّالِمِ عَلَی الْمَظْلُومِ ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۲۴۱)

مظلوم کا ظالم سے انتقام کا دن ظالم کے مظلوم پر ظلم کے دن سے زیادہ شدید ہو گا۔

بعض شیعہ روایات میں اس آیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

سیعلم الذین ظلموا (حق آل محمد) ای منقلب ینقلبون ۔

درمیان میں حق آل محمد روایت کا حصہ ہے جو مصداق بیان کرنے کے سلسلے میں ہے۔ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ اس بات پر دوسرے بہت سے یقینی دلائل کے ساتھ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے دوسرے مقامات پر جب اس آیت کی تلاوت فرمائی تو ’’حق آل محمد‘‘ کے بغیر تلاوت فرمائی ہے۔


آیت 227