آیت 5
 

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۵﴾

۵۔ اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوا رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ: کہتے ہیں کہ یہ قرآن سابقہ امتوں کی داستانیں ہیں۔ اس الزام سے ایسا لگتا ہے کہ قرآن صرف ماضی کی امتوں کی داستانوں سے عبارت ایک داستانی کتاب ہے حالانکہ ماضی کی امتوں کے واقعات قرآنی مطالب کا ایک حصہ ہیں۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ گزشتہ تکذیبی قوموں کے واقعات ان کی عبرت ناک ہلاکت پر مشتمل تھے جن سے یہ لوگ خوف زدہ تھے۔ اس خوف کو دلوں سے نکالنے کے لیے خاص کر ان واقعات کو ہدف بناتے تھے۔

۲۔ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ: ان داستانوں کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھوایا ہے۔ اس بات میں اس بات کا ثبوت چھوڑ گئے۔ قرآن مکی زندگی میں بھی ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا اور اس کی تدوین کا انتظام شروع سے کیا جا رہا تھا۔ اس میں ان لوگوں کی رد ہے جو کہتے ہیں قرآن عہد نبوت میں مدون نہ تھا۔

اکتب ، امر بہ کتابت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے احجم ، امر بہ حجامت اور افتصد امر بہ فصد میں ہے۔

۳۔ فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ: اس جگہ املاء سے مراد لکھنے کے بعد پڑھ کر سنانا ہے، لکھانا نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ لکھانا، پڑھ کر سنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ تعلیم تھا (بہ اعتراف مخالف)۔


آیت 5