آیت 114
 

فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ ۫ وَ قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ پس وہ بادشاہ حقیقی اللہ برتر ہے اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے میں عجلت نہ کریں اور کہدیا کریں: میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔

تفسیر آیات

وہ حقیقی مالک اور واقعی بادشاہ ہے۔ اپنی مملکت میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ البتہ اللہ کی چاہت اندھی بانٹ نہیں ہے بلکہ وہ اہل کو ہدایت دیتا ہے نااہل کو اپنے حال پر چھوڑتا ہے۔ سرکش کوسزا دیتا ہے۔ جن و انس کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجتا ہے، ہدایت کی کتاب نازل کرتا ہے۔ بلند و برتر ہے وہ بادشاہ حقیقی۔

وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ: قرآن پڑھنے میں عجلت نہ کرو۔ وحی ختم ہونے کا انتظار کرو۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ وحی ختم ہونے سے پہلے ہر جملے کو نزول کے ساتھ ساتھ نہ پڑھو بلکہ پہلے خاموشی سے پوری وحی سن لو اور وحی ختم ہونے کے بعد پڑھا کرو۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ چونکہ آپ ؐکے سینے میں قرآن پہلے سے موجود ہے لہٰذا وحی کی تکمیل ہونے سے پہلے آپ ؐپوری آیت پڑھ دیتے ہیں، ایسا نہ کریں۔

ان دونوں میں پہلی تفسیر زیادہ قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی سلسلے میں فرمایا:

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ (۷۵ قیامت:۱۶۔۱۷)

(اے نبی) آپ وحی کو جلدی (حفظ) کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ( ۸۷ اعلیٰ:۶)

(عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔

چنانچہ بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھولنے کے خوف سے وحی کو ساتھ ساتھ پڑھ لیتے تھے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہ بھولنے کی ضمانت فراہم فرمائی ہے۔

وَ قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا: وحی کے ذریعہ جو علم آپ کو دیا جا رہا ہے اس کے بھولنے کا خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا بھولنے کی فکر کی جگہ مزید علم کی فکر کرنی چاہیے۔

پروردگار میرے علم میں اضافہ کر: یہ جملہ ایک تعلیم، ایک نمونہ عمل ہے۔ آداب بندگی، ایک رہنمائی ہے۔ ایک فکر ہے کہ اس صفحہ ہستی کا موجود اول اپنے علم میں اضافے کے لیے دست سوال دراز کرتا ہے۔ یہ حصول علم کے لیے ایک اسوہ ہے۔علم کی اہمیت کے لیے ایک درس ہے۔ اللہ کے بعد اس کائنات میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی ہستی مزید علم کے لیے سوال کرتی ہے تو بے علم لوگوں کو حصول علم کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں آداب بندگی ہے کہ علم خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اللہ کے سامنے عاجزی کرنی چاہیے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کی پوری زندگی زِدۡنِیۡ عِلۡمًا پر مشتمل ہونی چاہیے۔


آیت 114