آیات 5 - 6
 

وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۪۵﴾

۵۔ اور اس نے مویشیوں کو پیدا کیا جن میں تمہارے لیے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَ حِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ ﴿۪۶﴾

۶۔ اور ان میں تمہارے لیے رونق بھی ہے اور جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور صبح کو چرنے کے لیے بھیجتے ہو۔

تشریح کلمات

دِفۡءٌ:

( د ف ء ) الدف گرمی، حرارت۔یہ برد (سردی) کی ضد ہے۔ آیت میں جاڑے کا سامان مراد ہے۔

تُرِیۡحُوۡنَ:

( ر و ح ) الاراحۃ چوپاؤں کا شام کے وقت واپس لانا۔

تَسۡرَحُوۡنَ:

( س ر ح ) سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کے سرح ، درخت چرانے کے ہیں۔ بعد میں چراگاہ میں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دینے کے معنوں میں استعمال ہوا۔

تفسیر آیات

ان آیات میں یہ بتانا مقصود ہے: اے مشرکو! تمہاری زندگی کا سامان فراہم کرنے والا اللہ ہے، نہ تمہارے ارباب۔

۱۔ وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا: چوپائے انسان کے لیے مسخر ہیں اور ان کی وجہ تخلیق انسان ہیں:

خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔ (۲ بقرہ:۲۹)

روئے زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لیے خلق کیا ہے۔۔۔۔

چوپائے بہت بڑی نعمت ہیں۔ دیہی زندگی ہو یا شہری، ابتدائی انسان ہو یا تمدن یافتہ، سب ان چوپاؤں سے بے نیاز نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کی اون، جلد اور ان کے دووھ سے بننے والی چیزیں انسان کی اہم ضروریات پوری کرتی ہیں۔

۲۔ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ: ان سے نہ صرف انسانی مصارف کا سامان فراہم ہوتا ہے بلکہ ان سے انسان کا جمالیاتی ذوق و شوق بھی پورا ہوتا ہے۔ اس بات کو دیہات و قصبات کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ان حیوانات کو جب چرنے کے لیے چھوڑتے ہیں اور شام کو جب واپس لاتے ہیں کیا دلفریب منظر سامنے آتا ہے۔

اہم نکات

۱۔اللہ انسان کے لیے صرف مصارفی نہیں بلکہ جمالیاتی لوازم بھی فراہم فرماتا ہے: وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ ۔۔۔۔


آیات 5 - 6