آیت 111
 

لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ؕ مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۱۱﴾٪

۱۱۱۔ بتحقیق ان (رسولوں) کے قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل (بتانے والا) ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

تشریح کلمات

عِبۡرَۃٌ:

( ع ب ر ) العبرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ: قرآن میں انبیاء علیہم السلام کے علی العموم اور حضرت یوسف علیہ السلام کے علی الخصوص قصے اس مقصد کے لیے بیان ہوتے ہیں کہ داعیان راہ حق کو اس بات کا علم ہو کہ اس راہ میں پیش آنے والی ہمت شکن مشکلات کے بعد اللہ کی طرف سے غیبی فتح و نصرت آ سکتی ہے۔ اس بارے میں جو حکمت آمیز سنت و قانون رائج ہے اس کی روشنی میں استقامت و اطمینان کے بعد فتح و نصرت کی امید رکھی جاتی ہے۔

۲۔ مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی: قصہ یوسف علیہ السلام کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد ہوا کہ یہ قصہ گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ سابقہ کتب شاہد ہیں کہ ان میں بھی قصہ یوسف علیہ السلام مذکور ہے۔ یہ اس کی تصدیق ہے۔

۳۔ وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ: ’’اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے‘‘ سے مراد ہر وہ چیز جو ہدایت بشر سے مربوط ہے اس کی تفصیل موجود ہے کیونکہ قرآن کتاب ہدایت و رحمت ہے۔ لہٰذا اپنے موضوع، ہدایت و رحمت میں اللہ تعالیٰ بہت بڑا فیاض ہے۔ ہدایت کے متعلق کسی گوشے کو تشنہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔

اہم نکات

۱۔ تاریخی حقائق انسان ساز ہوتے ہیں : فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ ۔۔۔۔

۲۔ قرآن میں ہدایت و رحمت سے متعلق ہر چیز کی تفصیل موجود ہے: وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ ۔۔۔۔


آیت 111