آیت 110
 

حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَنُجِّیَ مَنۡ نَّشَآءُ ؕ وَلَا یُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوں سے) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی، اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔

تفسیر آیات

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسکین قلب اور فتح و نصرت کے لیے اللہ کی سنت جاریہ کا ذکر ہے۔

دعوت الیٰ اللہ کے لیے یقین و برہان جیسی مضبوط اور محکم اساس اس لیے درکار ہوتی ہے کہ یہ کام، کوئی ایسا عمل نہیں کہ ہر شخص اسے انجام دے سکے اور تھوڑی سی مشقت پر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جائے۔ اگر کوئی نااہل اس مقام کا مدعی بن جاتا ہے تو معمولی سی مشقت پر ہار مان لیتا ہے اور حق و باطل کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ دعوت الی اللہ کے پیچھے اگر یقین محکم جیسی پشتیبانی نہیں ہے توانسان ان مشکلات و صبر شکن مصائب کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو ہر رسول کو اپنے زمانے کی جاہلیت کی طرف سے پیش آیا کرتے ہیں۔

مشکلات اس قدر سنگین، مصائب و الآم کے دن اتنے لمبے ہوتے ہیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے جاتے ہیں کہ وقت کا رسول اور اس کے اہل ایمان ساتھی چیخ اٹھتے ہیں کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟

حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۱۴)

(وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟

یاس کا عالم یہ ہو جاتا ہے کہ لوگوں کے دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ مؤمنین کے لیے نصرت اور کافرین کے لیے عذاب کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس میں کہیں خلاف وعدہ تو نہیں ہو رہا؟

کسی تاویل و توجیہ کے بغیر بظاہر سیاق آیت اس طرح ہے:

پیغمبران جب نصرت خداوندی سے مایوس ہو جاتے اور یہ گمان کرنے لگتے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے، یکدم ہماری نصرت ان کو پہنچ جاتی ہے۔ پھر ہم جس کو چاہتے ہیں نجات دیتے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا کیا جاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام معصوم اور حالات پر آگاہ ہوتے ہیں تو ان کے دلوں میں یہ یاس اور وعدہ خلافی کا خیال کیونکر آ سکتا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے بعض اہل قلم نے تو یہاں تک کہدیا: لفظ كُذِبُوْا کا حاصل اپنے تخمینے اور خیال کا غلط ہونا ہے جو ایک قسم کی اجتہادی غلطی ہے اور انبیاء علیہم السلام سے ایسی کوئی اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔ (معارف قرآن ۵: ۱۶۲) یہ تفسیر ہمارے لیے قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔

اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ ظاہر آیت سے جو معنی بادی النظر میں سامنے آتے ہیں وہ مراد نہیں لیے جا سکتے کیونکہ اس سے نہ صرف عصمت انبیاء پر بلکہ ایمان پر بھی حرف آتا ہے کہ وہ وعدہ الٰہی کے کذب کا گمان کریں۔ لہٰذا اس آیت کی توجیہ و تاویل ضروری ہے۔ روایت کے مطابق آیت کی توجیہ یہ ہے:

حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ جب انبیاء علیہم السلام لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے۔ خدا کی نصرت سے نہیں ، لوگوں سے مایوس ہو گئے۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے مایوسی کا اظہار فرمایا:

اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا﴿﴾ (۷۱ نوح: ۲۷)

اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو وہ یقینا تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور یہ لوگ صرف بدکار کافر اولاد ہی پیدا کریں گے۔

۲۔ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا: اور لوگوں نے بھی یہ خیال کرنا شروع کیا کہ انبیاء علیہم السلام نے ان سے جھوٹ بولا ہے کہ اللہ کی نصرت آنے والی ہے۔ جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا تب ہماری نصرت آ گئی۔ چنانچہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے مامون کے سوال کے جواب میں فرمایا:

حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ من قومھم و ظن قومھم ان الرسل قد کذبوا جاء الرسل نصرنا ۔۔۔۔ ( بحار ۱۱: ۸۲ باب ۴۔ عصمت انبیأ علیہم السلام۔۔۔۔ )

جب مرسلین اپنی قوم سے مایوس ہوگئے اور قوم نے بھی یہ گمان کرنا شروع کیا کہ رسولوں سے جھوٹ بولا گیا ہے، رسولوں تک ہماری نصرت آ گئی۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی نصرت اتنی ارزاں نہیں ہوتی کہ ہر شخص کو ہر وقت میسر آئے۔

۲۔ اللہ کی غیبی نصرت اس وقت آتی ہے جب ظاہری اسباب و وسائل سے مایوس ہو جائے۔

۳۔ حق کی دعوت دینے والے یأس کی سرحد تک استقامت کرتے ہیں۔


آیت 110