آیت 6
 

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶﴾

۶۔ اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ اس کی جائے قرار کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے، سب کچھ روشن کتاب میں موجود ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ: زمین پر چلنے والے تمام جانداروں کا رزق اللہ کے ذمے ہونے کا مطلب یہی ہے کہ اللہ ان جانوروں کے مختلف حالات کے تقاضوں کے تحت روزی پہنچاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات نہایت طبیعی ہے کہ اللہ کو ان جانوروں کی مستقل اور عارضی رہائشی جگہوں کا علم ہے اور ہر مقام کے تقاضوں کے مطابق روزی پہنچاتا ہے۔ صلب پدر اور رحم مادر میں عارضی تقاضوں کے مطابق اور روئے زمین نسبتاً مستقل ہونے کے تقاضوں کے مطابق اور ان جانوروں کے ارتقائی مراحل میں ہر مرحلہ کے تقاضوں کے مطابق روزی پہنچاتا ہے۔

اللہ کی طرف سے ہر جاندار تک اس کی روزی پہنچانے کی دو صورتیں اہم ہیں : دوران تخلیق، بعد از تخلیق، دوران تخلیق مستودع ہے اور بعد از تخلیق مستقر ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کی خلقت و فطرت میں تکوینی طور پر یہ ہدایت ودیعت فرماتا ہے کہ اسے روزی کہاں سے اور کس طرح حاصل کرنا ہے۔ اگر جانور ابھی خلقت کے مراحل میں ہے اور روزی حاصل کرنے کے طریقوں کے لیے تکوینی درس لے رہا ہے اور ابھی کورس مکمل نہیں ہوا ہے کیونکہ یہ کورس اس کی تخلیق کے مکمل ہونے کے ساتھ تکمیل کو پہنچے گا، اس صورت میں اللہ اس کی روزی اس تک پہنچا دیتا ہے اس کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جیسے رحم مادر میں جنین کی روزی، انڈے کے اندر چوزے کی روزی وغیرہ۔

۳۔ جب جانور کی تخلیق کے ساتھ یہ کورس بھی مکمل ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی کے لیے ضرورت کی روزی کہاں سے اور کیسے حاصل کرنا ہے تو اس صورت میں اللہ اسی ہدایت کے ذریعے اسے روزی پہنچا دیتا ہے جو اس کی خلقت و جبلت کے اندر ودیعت کی ہوئی ہے۔ چنانچہ حیوانات کے بچوں کو پیدا ہوتے ہی ماں کے تھن کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی روزی تھن میں ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ تھن ماں کے جسم کے کس حصے میں ہیں۔

۴۔ کُلٌّ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ: کُلٌّ یعنی سب کی سب موجودات، وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ساتھ موجود ہیں۔ اس خزانۂ غیب کو کتاب مبین ، کبھی لوح محفوظ ، کبھی کتاب حفیظ ، کبھی ام الکتاب کہا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ سے روزی لینے کے لیے اس کی تکوینی ہدایت پر عمل کرنا ہوگا۔

۲۔ روزی دینے کے لیے علم ضروری ہے۔ وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ۔


آیت 6