آیت 5
 

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ یَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمۡ لِیَسۡتَخۡفُوۡا مِنۡہُ ؕ اَلَا حِیۡنَ یَسۡتَغۡشُوۡنَ ثِیَابَہُمۡ ۙ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ۚ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۵﴾

۵۔ آگاہ رہو! یہ لوگ اپنے سینوں کو لپیٹ لیتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپائیں، یاد رکھو! جب یہ اپنے کپڑوں سے ڈھانپتے ہیں تب بھی وہ ان کی علانیہ اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، وہ سینوں کی باتوں سے یقینا خوب واقف ہے۔

تشریح کلمات

یَثۡنُوۡنَ:

( ث ن ی ) اَلثَّنْیَ کسی چیز کو موڑنا، دوہرا کرنا، لپیٹنا۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ نے مجھ سے بیان کیا: جب خانہ کعبہ کے گرد مشرکین، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک سے گزرتے تو سر اور پشت جھکا کر اور کپڑے سے سر ڈھانپ کر گزرتے تھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ ان پر نہ پڑے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (الکافی ۸: ۱۴۴)

تفسیر آیات

روایت اور آیت دونوں سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مشرکین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کعبہ کے نزدیک قرآن کی تلاوت کرتے سنتے تو چونکہ ان کے دلوں میں یہ بات مرکوز ہو گئی تھی کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہو سکتا، اللہ ہی کا کلام ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ کا کلام ہے تو ہم سنیں گے ہی نہیں کہ متاثر ہو جائیں۔ اپنے آپ کو چھپا کر یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کے سامنے حائل بن سکتا ہے۔ وہ تو دل کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے اور اس کائنات میں کوئی چیز اس سے چھپ نہیں سکتی۔

اہم نکات

۱۔ مشرکین آیت قرآن کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے: یَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ انسان اگر یہ تصور ہمیشہ زندہ رکھے کہ ہم ہمیشہ اللہ کے سامنے ہیں تو گناہ کرنے سے شرم کرے: اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۔


آیت 5