آیت 94
 

یَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قُلۡ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ ؕ وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ جب تم ان کے پاس واپس پہنچ جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے، کہدیجئے:عذر مت تراشو! ہم تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتا دیے ہیں اور عنقریب اللہ تمہارے اعمال دیکھے گا اور اس کا رسول بھی پھر تم لوگ غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ یَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ: جب تم (مدینہ) واپس پہنچ جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے۔ اس آیت سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیات تبوک کے سفر کے دوران واپس پہنچنے سے پہلے نازل ہوئی ہیں۔ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ میں جمع کا لفظ استعمال فرمایا۔ چونکہ منافقین اپنا عذر صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں نہیں ، دوسرے مؤمنین و مجاہدین کی خدمت میں بھی پیش کرنے والے تھے۔

۲۔ قُلۡ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ: آپ کہدیجیے عذر پیش نہ کرو۔ ہم تمہارے عذر کو نہیں مانیں گے۔ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جن کی بات پر حسن ظن رکھنا یا حسن ظاہر پر عمل کرنا چاہیے۔

۳۔ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ: اللہ تعالیٰ نے تمہاری خبریں ہمیں بتا دی ہیں۔ تمہارا راز فاش ہو چکا ہے۔

۴۔ وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ: جنگ تبوک کے بعد تم کیا کچھ کرنے والے ہو، وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے آئے گا۔ پھر تمہارے اعمال کے تناظر میں تم کو تولا جائے گا۔

۵۔ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ: پھر تم کو غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹایا جائے گا۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہیں جواب دینا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ مجرم ہمیشہ عذر تراشیاں کرتا ہے: یَعۡتَذِرُوۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ اسلامی قیادت کو چاہیے ایسے لوگوں کا عذر قبول نہ کریں : لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 94