تفسیر قرآن سورہ ‎ص‎ آیات 37 - 45

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ


و الشیاطین کل بناء و غواص
اور ہر قسم کے معمار اور غوطہ خور شیاطین کو بھی مسخر کیا اور دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جھکڑے ہوئے تھے۔حضرت سلیمان اور ان کی حکومت کے دائرہ کار کا ذکر ہے ۔اس سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے سلیمان کےلئے ہوا کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے ہوا چلا کرتی تھی اور اسی طرح کچھ شیاطین کو بھی مسخر کیا ۔یہ شیاطین سے کام لیتے تھے؟ کل بناء ۔ یہ معمار تھے و غواص اور غوطہ زن،غوطہ خور سمندر میں غوطہ لگا کر موتیاں نکال لاتے تھے۔ کل بناء۔ یہ عمارت بنانے کے لئے بڑے بڑے پتھر اٹھا کر کے لاتے تھے جو انسانوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔ بوجھ کو اٹھا کر کے لانا۔ چنانچہ ہیکل سلیمان اوریروشلم وغیرہ کی عمارت آج بھی محفوظ ہے اور لگتا بھی ہے کہ جنات کے زریعے وہ عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ یہ ہے حضرت سلیمان کی حکومت کا دائرہ جنات کی تسخیر تک پھیلا ہوا تھا۔
اس کے بعد فرمایا: ھذا عطاونا۔۔۔یہ ہماری عنایت ہے جس پر چاہو احسان کرو اور جس کو چاہو روک دو اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔حضرت سلیمان کے لئے مکمل اختیار دیا جا رہا ہے کہ یہ ہماری طرف سے بغیر کسی شرط و قید کے عطا ہے ہماری عنایتیں۔اب یہ جو مسخر ہے جنات وغیرہ ان میں سے جس کو چاہو ان کے اوپر احسان کرو فامنن احسان کر کے چھوڑ دو۔ او امسک یا ان جنات کو پکڑ کے رکھو،روک کے رکھو،اپنے پاس رکھو بغیر حساب۔دونوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی ،سوال نہیں ہوگا۔آپ کو مکمل اختیار حاصل ہے۔و ان لہ عندنا لزلفی۔۔۔اور ان کے لئے ہمارے ہاں قرب ،زلفی اور نیک انجام ہے۔حسن ماب۔ماب مآل و مرجع۔یعنی حضرت سلیمان کے لئے سب سے بڑی منزلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے ۔و حسن ماب۔ اور عاقبت بھی بہتر ہے۔
اللہ کے ہاں قرب حاصل ہونا اور عاقبت بخیر ہونا سب سے بڑی نعمت ہوا کرتی ہے لیکن حضرت سلیمان جیسے پیغمبر کے لئے پھر بھی یہ ایک بہت بڑی خبر ہےعندنا لزلفی ہماری ہاں اس کو قرب حاصل ہے۔و ذکر عبدنا ایوب۔۔۔اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے۔حضرت ایوب کا ذکر ہے۔حضرت ایوب کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو ایک عارضہ لاحق تھا ۔اس سے پہلے سورہ انبیاء میں حضرت ایوب کا ذکر آیا ہے اس میں حضرت ایوب نے کہا ہے کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور اس آیت میں ذکر کیا ہے کہ شیطان کی طرف سے یہ تکلیف آئی ہے۔آیا شیطان نے ہی حضرت ایوب کو بیمار کیا تھا یا بیمار ہونے پر وسوسوں کے زریعے اذیت پہنچائی تھی؟ ہمارے نزدیک اس کے اوپر کوئی شاہد،دلیل نہیں ہے ۔بہر حال یہاں یہاں آیت میں ہے کہ شیطان نے تکلیف پہنچائی تھی۔یہ تو واضح ہے کہ شیطان کی کوشش تھی کہ بیماری لاحق ہونے کے صورت میں حضرت ایوب اللہ سے ناراض ہو جائے اور شکایت کرے اور راستے سے بھٹک جائے ۔اس میں شک نہیں ہے۔چنانچہ حضرت ایوب سات سال تک بیمار رہے اور یہ سات سال تک بیمار رہنے کی وجہ سے شیطان کی کوشش رہی ہوگی یقینا کہ حضرت ایوب اللہ سے بد ظن ہو جائے اور نا فرمان ہو جائے۔اس لئے حضرت ایوب نے اس تکلیف کو شیطان کی طرف منسوب کیا ہو۔
روایت میں تو یہ ہے کہ ایوب کی بیماری بڑھ گئی یہاں تک کہ لوگوں نے ان سے دوری اختیار کرنا شروع کی ،شیطان نے ان لوگوں کو اس وسوسے میں ڈالا کہ ایوب کی غلاظت سے بچے اور انہیں اپنے درمیان سے نکالے ،ان کی اہلیہ کو ان کی خدمت کرنے سے روکے جس سے ایوب کو اذیت ہوتی تھی مگر انہوں نے بیماری سے ہونے والی اذیت کا شکوہ نہیں کیا یعنی ایوب نے۔یہ بیماری سات سال تک جاری رہی۔یہ روایت ہے مجمع البیان میں ۔بہر حال حضرت ایوب جو ہے سات سال تک بیمار رہتے ہیں اور سب لوگ ان کو چھوڑ دیتے ہیں ۔سات سال کے بعد اللہ کی طرف سے حکم آتا ہےارکض برجلک۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنا پاوں مارے یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لئے۔جب صبر و رضا کی منزل کو طے کیا حضرت ایوب نے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا اپنے پاوں زمین پر مارے چنانچہ پاوں زمین پر مارتے ہی چشمے پھوٹے جس سے پانی پی کر اور نہا کر شفایابی حاصل ہو گئی،ایوب صحت مند ہوئے۔
بائبل کے مطابق کہتے ہیں کہ حضرت ایوب کو جلد کی بیماری تھی اور حضرت ایوب کے سارے بدن پر پھوڑے تھے۔یہ بائبل کی روایت ہے۔ حضرت ایوب کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا پاوں مارے تو اس سے ھذا مغتسلیہ نہانے کے لئے۔ بارد و شراب ۔ ٹھنڈا ہے اور پینے کے لئے۔چشمے کی طر ف اشارہ ہے کہ یہ جس میں آپ نہانے سے بیماری ختم ہوگی چنانچہ چشمہ پھوٹتا ہے جس میں حضرت ایوب نہاتے ہیں اور ان کو صحت مل جاتی ہے۔و شراب اور پینے سے۔یہاں ظاہر ہوتا ہے کہ پاوں مارنے سے ایک چشمہ پھوٹا تھا اسی چشمے میں نہایا بھی تھا اور اسی چشمے کو پیا بھی تھا۔اس آیت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے لیکن بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت ایوب کو دو مرتبہ پاوں مارنے کا حکم دیا۔ایک مرتبہ سے جو چشمہ پھوٹا ہے اس میں نہایا تھا دوسری مرتبہ سے چو چشمہ پھوٹا ہے اس سے پیا تھا اور پینے سے ان کو شفا حاصل ہو گئی۔
و و ھبنا لہ۔۔۔۔اور ہم نے انہیں اہل و عیال دیئے اور ان کے ساتھ اتنے مزید دیئے اپنی طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لئے نصیحت کے طور پر۔ووھبنا لہ اھلہ۔ہم نے اپنے اہل و عیال ان کو واپس کر دیا۔حضرت ایوب بیمار ہونے کی وجہ سے سب لوگ ساتھ چھوڑ گئے تھے کہ صرف ان کی اہلیہ اکی پاس باقی بچ گئی تھی باقی سب گھر کے افراد یا فوت ہو گئے تھے ،صرف ان کے اہلیہ بچ گئی تھی۔دیگر روایت میں آئی ہے کہ ان کے گھر کے تمام افراد نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ جسم پر پھوڑے یا بیماری کی وجہ سے تعفن پھیل رہا تھا تو لوگ چھوڑ کر کے چلے گئے تھے ان کے پاس سے اور جب وہ تندرست ہو گئے تو سب اس کے اہل و عیال جو ہے واپس آگئے ۔اس کی طرف اشارہ رہے۔ووھبنا لہ اھلہ۔اور ہم نے انہیں اہل و عیا ل دیئے،انہیں واپس کیا ٹھیک ہونے کی وجہ سے۔و مثلھم معھم ۔اور ان کے ساتھ مزید عنایت فرمائی۔یعنی جو اہل و عیال بیماری سے پہلے موجود تھےاور ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے صحت مند ہونے کے بعد مزید اولاد عنایت فرمائی۔مثلھم معلھم۔مزید اتنی اولاد عنایت ہوئی،اولاد دوگنی ہوئی۔ رحمۃ منا۔ یہ اللہ کی طرف سے رحمت کے طور پر حضرت ایوب کے صبر ر رضا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا۔
و ذکری لاولی الالباب۔حضرت ایوب کو آزمائش میں ڈالنا ،سات سال تک مریض رکھنا اور اس کے بعد شفا حاصل ہونا جو ہے اس میں یہ مصلحت تھی کہ آنے والے نسلوںمیں جو صاحبان عقل ہے ان کو حضرت ایوب کے اس صبر اور حوصلے سے سبق مل جائے کہ حالات خواہ کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہو حضرت ایوب کی طرح ہی کیوں نہ ہو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہئے ۔صاحبان عقل کے لئے،سمجھدار لوگوں کے لئے اس میں بڑا درس ہے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے۔انسان کی زندگی میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوا کرتے ہیں زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں اونچ نیچ ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یوم لک و یوم علیکایک دن آپ کے حق میں ہوتا ہے ایک دن آپ کے خلاف ہوتا ہے ۔اگر آپ کے حق میں ہو تو اترانا نہیں اور آپ کے خلاف ہو تو گھبرانا نہیں۔ مومن جو ہے ۔
وہ جن کے دل میں ایمان راسخ ہے وہ نہ بہتر حالات میں اتراتے ہیں اور نہ نا مساعد حالات میں گھبراتے ہیں ۔دونوں نہیں کرتے ہیں ۔مومن جو ہے وہ ایک مظبوط چٹان کی طرح ہوتا ہے ۔قرآن مجید میں آیا ت ہیں اس سلسلے میں اس میں یہی فرما یا ہے کہ حالات ٹھیک ہو تو اتراتے ہیں اور حالات خراب ہو تو پریشان ہوتے ہیں ۔الا المصلین ۔سوائے نماز گزاروں کے۔نماز گزار جو ہے حالات کو مقابلہ کرتے ہیں ۔ایمان انسان کو مظبوط چٹان کی طرح جو ہے بنا دیتا ہے ۔اس کے لئے مومنین کے لئے ایک نمونہ ہے ایک کردار ہے ایک مثال ہے حضرت ایوب کی یہ حالت۔و خذ بیدک۔۔۔۔۔ہم نے کہا پنے ہاتھ میں ایک گھچہ تھا م لے اور اسی سے مارے اور قسم نہ توڑے اور ہم نے انہیں صابر پایا وہ بہترین بندے تھے ۔بے شک وہ اپنے رب کی طر ف رجوع کرنے والے تھے۔
نعم العبد انہ اواب۔ضغثا،یہاں پر لفظ ضغث آیا ہے۔ض،غ،ث۔ضغث کہتے ہیں خشک گھاس یا مختلف شاخوں کو مختلف شاخیں جو ہیں اس کو ایک گھچہ بنائے تو اس میں کافی ساری شاخیں ہوتی ہیں۔ولا تحنث۔ الحنث۔گناہ ،نافرمانی قسم توڑنے کو کہا جاتا ہے،حنث توڑنے کو ۔لا تحنث قسم مت تو ڑو۔کہتے ہیں کہ جب حضرت ایوب جب مریض تھے تو اس وقت اپنی زوجہ کی کسی بات پر برہم ہوئے تھے ،ناراض ہوئے تھے اور قسم کھائی کہ اسے سو کوڑے ماریں گے۔قسم کھائی سو کوڑے مارنے کی۔بعد میں جب وہ بے گناہ ثابت ہوئی تو پریشان ہوئے۔ادھر سے میں نے قسم کھائی ہے سو کوڑے مارنے کی اور دوسرے طرف سے یہ بے گناہ ثابت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک حل بتا دیا کہ سو تنکے،سو تنکوں والا گھچا اٹھائے اور اٹھا کر کے مارے تو سو کوڑے ماریں ،تنکے سو ہیں اور مارا بھی ہے تو سو کوڑے ہوگئے تو آپ کی قسم نہیں ٹوٹی۔آپ نے قسم کھائی تھی کہ میں سو کوڑے ماروں گا ۔سو کوڑے آپ نے مار دیئے۔ان کو حیلہ شرعی کہا جاتا ہے۔بہت سی مثالیں ہیں اس طرح کے حیلہ شرعی کی۔
یہ حکم اسلامی حدود و تعزیرات میں بھی نافذ ہوتا ہے جہاں حد و تعزیر معاف ہونے کا مستحق ہو جیسے مریض ہے اس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور وہ سوکوڑے یا اسی کوڑے کی سزا اس کے لئے اسلامی عدالت نے جاری کیا ہے اور ادھر وہ بیمار ہے سو کوڑے کیا چار کوڑے بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے ۔توادھر سے کوڑے مارنا بھی ہے اور ادھر اس کے لئے برداشت نہیں ہے وہاں بھی اسی طرح کے تنکے منکے جمع کر کے ماریں گے لیکن جہاں معاف نہیں ہو سکتا وہاں یہ حیلہ شرعی جاری کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔مریض نہیں ہے ٹھیک ٹھاک ہے اور ا س کو سو کوڑے مارنے کے لئے سو تنکے مار کر جان چھڑائے نہیں ہو سکتا ۔
انا وجدناہ صابرا۔اللہ ارشاد فرماتا ہے:ہم نے ایوب کو بڑا صابر پایا اور انہوں نے بڑی استقامت دکھائی اور حرف شکایت زبان پر نہیں لایا اور انتہائی سنگین حالات میں بھی اللہ سے اپنی امیدوں کا رشتہ نہیں توڑا۔یہی درس ہے مومن کے لئے۔حالات خواہ کتنے ہی نا مساعد ہی کیوں نہ ہو اللہ سے امید کا رشتہ نہیں توڑنا۔اللہ اگر کسی بندے سے کوئی امتحان لینا چاہتا ہے ۔البلاء للولاء۔اللہ خاص بندوں کو امتحان میں ڈالتا ہے ہر ایک کو نہیں امتحان میں ڈالتا اور اللہ کوئی منصب یا کوئی عہدہ عنایت کرنا چاہتا ہے تو اس بندے کو پہلے ابتلاء میں ،آزمائش میں مبتلاء کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے آزمایا اور اس میں کامیاب ہو گئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے کہاانی جاعلک۔۔۔میں اب امام بناوں گا۔آزمائش اور امتحان کے بعد وہ اس منصب کا اہل ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ وہ منصب عنایت کرتا ہے۔آپ کو بتاتا رہتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے جو بھی چیز ملنا ہے وہ مفت میں نہیں ملتی اور اللہ جو بھی عہدہ دیتا ہےوہ عہدہ منصب اندھی بانٹ نہیں ہے۔اہل کو دیتا ہے اللہ تعالیٰ۔اہل کب بنتا ہے؟اہل آزمائش میں ڈالنے کے بعد بنتا ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو خوب آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس آزمائش سے کامیاب ہونے کے بعد وہ اہل ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کو منصب نبوت و رسالت و امامت و غیرہ عنایت کرتا ہے۔اس سلسلے میں ایک آیت ہے جاءھم نصرنا۔جب وہ مایوس ہونے لگے اور لوگ کہنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ کہاں اللہ کی نصرت آئے گی۔جب آخری مرحلہ تک پہنچے ہیں تو۔ جاءھم نصرنا۔ان تک ہماری نصرت آگئی۔بہت سی آیتیں ہیں اس سلسلے میں و اذکر عبادنا۔۔۔اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کیجئے جو طاقت اور بصیرت والے تھے۔ایدی ،ید کی جمع ہے۔ید طاقت کے لئے استعمال ہوتا ہے محاورے میں ۔یہاں پر کہا ہے لما خلقت بیدی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے تو اس سے یہ ہاتھ مراد نہ لیا کرو ۔ہاتھ سے مراد طاقت ہے۔نہ کہو اللہ کے ہاتھ ہےخود قرآن نے کہا ہے کہ جو میں نے اپنے دونوں ہاتھ سے بنایا ہے۔اپنی طاقت سے بنایا ہے۔و السماء ۔۔۔۔اور آسمان کو ہم نے بنایا ہے طاقت سے۔اس ساری کائنات کو ۔
کچھ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ ساری کائنات کو انرجی سے بنایا ہے ،پوری کائنات انرجی ہے ۔ اور مادہ کیا ہے پھر؟ مادہ اس انرجی کا ایک جگہ ارتکاز ہونے سے وہ مادہ بنتا ہے۔اصل انرجی ہے۔یہاں پر بالمناسبہ ایک بحث کا ذکر کرتے ہیں :قدیم سے سائنسدانوں کے درمیان اختلاف ہے کہ اصل انرجی ہے یا مادہ ہے؟ اگر ہم کہے کہ اصل مادہ ہے تو مادہ اپنی ذات کو چھوڑ دیتا ہے ۔کوئی بھی چیز اپنی حقیقت کو ترک کرکے نابود نہیں ہوجاتی۔یہ مادہ نابود ہو کر کے انرجی بن جاتا ہے۔یہ مادہ اگر اصل ہے تو پھر یہ نابود نہ ہوتا مادہ۔مادہ نابود ہو تاہے انرجی بن کر ۔انرجی بن کر مادہ کا نام و نشان باقی نہیں رہتا بلکہ نابود ہو جاتاہے۔اور اگر ہم کہے کہ ا نرجی اصل ہے تو انرجی کے ارتکاز سے وہ مادے میں تبدیل ہوتا ہے انرجی ختم ہوتا ہے۔انرجی اپنی ذات کو چھوڑ دیا۔ہر چیز اپنی ذات کو نہیں چھوڑ سکتی۔جس نے اپنی ذات کو چھوڑ دیا پتہ چلے گا یہ اس کی ذات نہیں ہے۔پھر نہ مادہ ذاتی ہے نہ انرجی ذاتی ہے ۔دونوں ذاتی نہیں ہے تو کون ذاتی ہے؟ کوئی ارادہ ہے وہ ذاتی ہے جس سے یہ کائنات وجود میں آیا۔
و اذکر عبادنا۔۔۔۔۔طاقت اور بصیرت والے۔ انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے طاقت ور بنایا۔انبیاء طاقت ور کہاں سے بنتے ہیں؟ان کی قوت ایمانی سے۔ایمان اور کسی چیز کے اوپر ازعان،باور یقین اس سے زیادہ محکم چیز نہیں ہے۔اور اگر انسان کے اندر یقین اور ایمان نہیں ہے وہ متزلزل ہوتا ہے وہ جلدی پھسل جاتا ہے جس کے پاس یقین ہے ایمان ہے وہ مظبوط ہوتا ہے چٹان سے بھی زیادہ چنانچہ جس کے پاس زیادہ یقین ہے ایمان ہے وہ معصوم ہوتا ہے۔کیوں معصوم ہوتا ہے؟وہ سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے اس ذات کو جس کے نا فرمانی کرنا ہوتا ہے گناہگار نے۔وہ اللہ کے سامنے بیٹھ کر گناہ نہیں کر سکتا ،کر سکتا ہے لیکن نہیں کرتا اس کی معصوم کہتے ہے۔اس کی قوت ایمانی اور یقین کی طاقت زیادہ ہونے کی وجہ سے۔
و الابصار۔عزم و ارادہ میں طاقت کے ساتھ قلب و نظر میں بصیرت میں بھی ۔یہاں سے ہم کو پتہ چلا کہ یہ انبیاء کا ذکر کیا ابراہیم ،اسحاق و یعقوب ان کا ذکر کر کے سب کے لئے کہا کہ یہ لوگ طاقت ور تھے اور بصیرت والے تھے۔انبیاء کی کامیابی کے لئے دو باتوں کی طرف اشادہ کیا ہے۔انبیاء کی کامیابی کا راز کس چیز میں ہے؟دو چیزوں میں ہے۔ طاقت تھے ایمانی طاقت اور بصیرت تھی ،سمجھداری،حکمت بعض جگہوں پر حکمت کہتے ہیں ہم نے ان کی حکمت دے دی۔یعنی واقع بینی،بصیرت ،حقیقت بینی اور محکم یقین۔طاقت،یقین کی طاقت اور حقیقت بینی ۔یہ دو باتیں انبیاء کرام کے پاس ہوتی تھیں ان دو طاقتوں کی وجہ سے انبیاء اپنی مشن میں ہمیشہ کامیاب رہے۔