جنت کی وسعت


سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۲۱﴾

۲۱۔ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جتنی ہے اور ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے اسے وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

21۔ مغفرت کا عمل خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ سبقت لے جانا مغفرت کے اسباب کی طرف ممکن ہے۔ لہٰذا اس آیت میں حکم یہ ہے کہ اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جاؤ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے بعد عمل صالح کا ذکر نہیں ہے، چونکہ عمل صالح کا ذکر تو شروع میں اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ کے ضمن میں آ گیا ہے۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ اس جنت میں جانا اللہ کے فضل و کرم کے تحت ممکن ہو گا، ورنہ انسان کا عمل خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، دنیوی نعمتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مَنْ يَّشَاۗءُ یہ فضل صرف اہل ایمان کے ساتھ مختص ہونا اللہ کی مشیت ہے۔

جنت کے زمان و مکان کو ارضی زمان و مکان کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنا درست نہ ہو گا۔ ارضی مکینوں کو جنت کی وسعت سمجھانے کے لیے فرمایا: ”جنت کی وسعت آسمانوں کی وسعت کی مانند ہے۔ ”آسمانوں کی وسعت کا اندازہ اب تک کے انسان کو نہیں ہوا ہے، لہٰذا بعض جنتیوں کی اتنی بڑی سلطنت ہو گی جو ہمارے لیے قابل تصور نہ ہو گی۔