آیت 21
 

سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۲۱﴾

۲۱۔ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جتنی ہے اور ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے اسے وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ: اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ سورہ آل عمران آیت ۱۳۳ میں فرمایا:

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ۔۔۔۔

اور اپنے رب کی بخشش طرف جانے میں سبقت لو۔

ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سرعت سے کام لو یعنی مسابقت میں مسارعت کرو۔

مغفرت کا عمل خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ سبقت لے جانا مغفرت کے اسباب کی طرف، ممکن ہے لہٰذا اس آیت میں حکم یہ ہے کہ اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جاؤ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے بعد عمل صالح کا ذکر کیوں نہیں ہے۔

۲۔ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ: اس جنت کی طرف سبقت لے جانے کی کوشش کرو جس کی وسعت کل کائنات یعنی آسمانوں اور زمین کی وسعت کی مانند ہے۔

کل کائنات کی وسعت کیا ہے؟ اس کا علم انسان کو نہیں ہے۔ کائنات کے جس حصے کا انسان کو علم ہوا ہے وہ بھی محیر العقول ہے۔ اس کائنات کے ایک حصے کا نور جو تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتا ہے ابھی تک دوسرے حصوں کو نہیں پہنچ سکا اور اربوں سال سے چلی ہوئی روشنی کائنات کے طول و عرض اور وسعت کو دریافت کرنے سے قاصر ہے۔

برطانیہ کے سائنسدانوں نے کائنات کا آخری کنارہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ روزنامہ جنگ ۲۲، اکتوبر ۲۰۱۰ء کے مطابق برطانوی یونیورسٹی آف برسٹل کے سائنسدان میلکم گریمر نے بتایا کہ کائنات کے آخری کنارے پر موجود کہکشاں ہمارے نظام شمسی سے 13.1 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

اس جنت کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب ہے ان لوگوں کے لیے جو کائنات کے ایک نہایت ناچیز، ناقابل اعتنا کرۂ ارض کے رہنے والے ہیں۔یہ کرۂ ارض جو اس سورج کے تابع ہے، اسے اپنی کہکشاں میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے۔

۳۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ: اس محدود زمین کے باشندے کا اس عظیم جنت میں جانا اللہ کے فضل و کرم کے تحت ممکن ہو گا، ورنہ انسان کا عمل خواہ کتنا ہی زیادہ ہو دنیوی نعمتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ مومن کی زندگی، مغفرت و جنت کی طرف مسابقت سے عبارت ہے۔

۲۔ اللہ کی کائنات اور جنت کی وسعت وصف و بیان سے بڑھ کر رہے۔


آیت 21