ائمہ حق و ائمہ کفر


یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۚ فَمَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقۡرَءُوۡنَ کِتٰبَہُمۡ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ﴿۷۱﴾

۷۱۔ قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے پھر جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا پس وہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔

71۔ 72 اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں امام حق اور امام باطل دونوں موجود ہوتے ہیں۔ جہاں باطل کی طرف دعوت دینے والے امام شیطان اور اس کے ہمنوا ہوتے ہیں، وہاں حق کی طرف دعوت دے کر لوگوں پر حجت پوری کرنے والے امام کا وجود بھی ضروری ہے۔ چنانچہ امام حق کے ساتھ محشور ہونے والوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ انتخاب امام اور حق کی پیروی کے مسئلے میں جو لوگ دنیا میں اندھے ہوں گے وہ آخرت میں بھی اندھے رہیں گے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: کیا تم اللہ کی حمد و ثنا بجا نہیں لاتے کہ جب قیامت کے دن اللہ ہر قوم کو اس شخص کے ساتھ بلائے گا جس کی پیشوائی اس نے قبول کی ہو گی تو ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پکارے گا تو تم ہماری پناہ میں آؤ گے؟ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم کدھر لے جائے جاؤ گے؟ رب کعبہ کی قسم! جنت کی طرف۔ اس جملہ کو امام علیہ السلام نے تین مرتبہ دہرایا۔ (مجمع البیان)