آیات 71 - 72
 

یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۚ فَمَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقۡرَءُوۡنَ کِتٰبَہُمۡ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ﴿۷۱﴾

۷۱۔ قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے پھر جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا پس وہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔

تشریح کلمات

الامام:

( ا م م ) الامام وہ جس کی اقتدا کی جائے خواہ وہ انسان ہو کہ اس کے قول و فعل کی اقتدا کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر۔

تفسیر آیات

قرآنی اصطلاح میں امام وہ ہے جو رہنمائی اور دعوت کا کردار ادا کرے خواہ حق کی طرف رہنمائی کرے یا باطل کی طرف۔ چنانچہ ائمہ حق کے بارے میں فرمایاـ:

وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۷۳)

اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔۔۔۔

اور ائمہ باطل کے بارے میں فرمایا:

وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۔۔۔(۲۸ قصص: ۴۱)

اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں۔

ان دو آیتوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام حق وہ ہے جو اپنے مقتدیوں کی اللہ کی طرف راہنمائی کرے اور امام باطل وہ ہے جو اپنے مقتدیوں کو آتش کی طرف دعوت دے۔

اس آیت میں فرمایا: قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ دوسری آیت میں فرمایا: جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ قیامت کے دن بھی اندھا رہے گا۔

ان دو آیتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان دنیا میں جس رہبر کی اقتدا کرتا ہے وہ اس کی آخرت کے لیے تقدیر ساز ہے اور جو دنیا میں اندھارہا ہو وہ آخرت میں اندھا رہے گا۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں امام حق اور امام باطل دونوں موجود ہوتے ہیں کیونکہ قیامت کے دن کُلَّ اُنَاسٍۭ ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا تو ہر گروہ کے پاس امام کا ہونا لازمی قرار پایا، خواہ امام حق ہو یا باطل۔ اگر اس گروہ کے پاس امام حق نہیں ہے تو امام باطل ضرور ہو گا۔

چنانچہ مشہور حدیث میں آیا ہے:

وَ اَنَّ مَنْ مَاتَ وَ لَم یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً ۔۔۔۔ ( وسائل الشیعۃ ۱۶: ۴۴۶ ۳۳ باب تحریم تسمیۃ المہدی ع و سائر الائمۃ ۔۔۔۔)

جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امامت و ولایت کو نجاتِ آخرت میں کس قدر اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے مروی ہے:

بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ عَلَی الصَّلَاۃِ وَالزّکَاۃِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَالْوَلَایَۃِ وَلَمْ یُنَادَ بِشَیْئٍ کَمَا نُودِیَ بِالْوَلَایَۃِ ۔ ( الکافی ۲: ۱۸ باب دعائم الاسلام )

اسلام کے ارکان پانچ ہیں : نماز، زکوۃ، روزہ، حج اور ولایت اور جو اہمیت ولایت کو دی گئی ہے کسی اور چیز کو نہیں دی گئی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

لا تمجدون اللّٰہ ذا کان یوم القیامۃ فدعا کل اناس الی من یتولونہ و فزعنا الی رسول اللّٰہ ص و فزعتم الینا فاِلیٰ أین ترون یذہب بکم؟ الی الجنۃ و رب الکعبۃ۔ قالہا ثلاثاً ۔۔۔۔ ( مجمع البیان۔ بحاالانوار ۸: ۸ باب ۱۹۔ انہ یدعا فیہ کل اناس بامامہم )

کیا تم اللہ کی حمد و ستائش بجا نہیں لاتے کہ جب قیامت کے دن اللہ ہرانسان کو اس شخص کے ساتھ بلائے گا جس کی پیشوائی اس نے قبول کی ہو گی ہمیں رسول اللہ کے ساتھ پکارے گا تو تم ہماری پناہ میں آؤ گے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم کو کدھر لے جائیں گے؟ رب کعبہ کی قسم جنت کی طرف۔ اس جملے کو امام نے تین مرتبہ دہرایا۔

اہم نکات

۱۔ فلاح و نجات کا مسئلہ، امامت و رہبری سے مربوط ہے۔

۲۔ نامہ اعمال کے مندرجات کا انحصار امامت پر ہے۔

۳۔ انتخاب رہبر میں جو شخص دنیا میں اندھا رہا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔


آیات 71 - 72