کمزوری اور فکری غلطی


وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ جَمِیۡعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُنَّا لَکُمۡ تَبَعًا فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا مِنۡ عَذَابِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قَالُوۡا لَوۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ لَہَدَیۡنٰکُمۡ ؕ سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا مَا لَنَا مِنۡ مَّحِیۡصٍ ﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ اور سب اللہ کے سامنے پیش ہوں گے تو کمزور لوگ ان لوگوں سے جو (دنیا میں) بڑے بنتے تھے کہیں گے: ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو؟ وہ کہیں گے: اگر اللہ نے ہمارے لیے کوئی راستہ چھوڑ دیا ہوتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے، ہمارے لیے یکساں ہے کہ ہم فریاد کریں یا صبر کریں، ہمارے لیے فریاد کا کوئی راستہ نہیں۔

21۔ بروز قیامت ظالم، مفاد پرست اور ان کے پیروکار اور شیطان سب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو حقائق سامنے آ چکے ہوں گے۔ عذاب الٰہی کا جب مشاہدہ کریں گے تو پیروکار اپنی دنیاوی عادت کے مطابق آخرت میں بھی انہی رؤساء کی طرف رجوع کریں گے اور دنیا میں ان کی پیروی کو ذریعہ نجات تصور کر کے کہیں گے: ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو۔ جبکہ یہ تابعیت اور اطاعت نہ صرف ذریعہ نجات نہیں ہے بلکہ ہلاکت ہے۔

دنیا میں کمزور لوگ ہمیشہ طفیلی سوچ رکھتے تھے۔ وہ اپنے عقائد و افکار میں آزاد نہ تھے، وہ آنکھیں بند کر کے اپنے بڑوں کی پیروی کرتے تھے۔ وہ آخرت میں بھی دنیاوی عادت کے مطابق پھر انہی کی طرف رجوع کریں گے۔