قرآن کے سحر ہو نے کا الزام


اِنَّہٗ فَکَّرَ وَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔اس نے یقینا کچھ سوچا اسے(کچھ) سوجھا۔

18۔ اس نے سوچا کہ قرآن کو کس نام سے رد کیا جائے۔ آخر کار اسے جادو کا نام دینے کا سوجھا۔

فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ پس اس پر اللہ کی مار، اسے کیا سوجھی؟

ثُمَّ قُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ پھر اس پر اللہ کی مار ہو، اسے کیا سوجھی؟

ثُمَّ نَظَرَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ پھر اس نے نظر دوڑائی،

ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا،

ثُمَّ اَدۡبَرَ وَ اسۡتَکۡبَرَ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔پھر پلٹا اور تکبر کیا،

فَقَالَ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ پھر کہنے لگا: یہ جادو کے سوا کچھ نہیں ہے جو منقول ہو کر آیا۔

24۔ جادو کا نام دینے میں اسے تامل تھا کہ محمد ﷺ کو کبھی جادو سے سروکار نہیں رہا تو یہ توجیہ گھڑ دی کہ کسی سے سیکھا ہے، یعنی درآمد شدہ جادو ہے۔

سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ممکن ہے اشارہ بابل کی طرف ہو کہ یہ جادو بابل سے درآمد کیا گیا ہے۔