شریعت اور صفات الٰہیہ میں مناسبت


وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، ان کی کرتوت کے بدلے اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

38۔ حدیث ہے: حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ (بحار الانوار 29:407) مال مسلم کو وہی حرمت حاصل ہے جو خون مسلم کو ہے۔ چنانچہ اسلام نے جان و مال کے تحفظ کے لیے قانون وضع کیے۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کے لیے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے: 1۔ چوری قحط اور بھوک کی وجہ سے نہ ہو۔ 2۔ چوری محفوظ جگہ سے کی گئی ہو۔ 3۔ چوری کرنے والا عاقل ہو۔ 4۔ بالغ ہو۔ 5۔ مال غلط فہمی کی بنا پر نہ اٹھایا گیا ہو۔ 6۔ مال مشترکہ نہ ہو۔ 7۔ باپ بیٹے کا مال نہ ہو۔ 8۔ اعلانیہ طور پر نہ اٹھایا گیا ہو۔ جس مالی نصاب پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے وہ فقہ جعفری کے مطابق ایک چوتھائی دینار ہے۔ امام مالک، شافعی اور حنبل کا بھی یہی نظریہ ہے۔ فقہ جعفری کے مطابق چار انگلیاں جڑ سے کاٹی جائیں گی، جبکہ اہل سنت کے نزدیک ہاتھ کلائی سے کاٹا جاتا ہے۔ اصمعی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: میں نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے غفور رحیم پڑھ دیا تو ایک عرب بدو نے کہا کہ یہ کس کا کلام ہے؟ میں نے کہا اللہ کا۔ بولا: پھر پڑھو۔ میں نے پھر غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ پڑھا۔ پھر میں متوجہ ہوا کہ غلط پڑھ رہا ہوں اور جب میں نے پڑھا: وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ تو بدو نے کہا: اب درست پڑھا ہے۔ میں نے پوچھا: تم نے کیسے سمجھا؟ کہا : اللہ عزیز و حکیم ہے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اگر غفور و رحیم کا ذکر آتا تو ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ دیتا۔ ایک بدو بھی جانتا ہے کہ اللہ کی حکمت و قہاریت کے تقاضے اور ہیں جبکہ مغفرت و رحمت کے تقاضے اور۔ مغربی دنیا والے اپنے مفادات کے لیے دنیا میں لاکھوں انسانوں کا سینہ چھلنی کر دیتے ہیں اور ہاتھ کاٹنے کی سزا کو غیر انسانی کہتے ہیں۔ اس سزا سے بیشمار لوگ ناقص العضو نہیں ہوں گے، کیونکہ تاریخ اسلام میں اسلامی حکومت کی چار صدیوں میں صرف چھ بار ہاتھ کاٹنے کی نوبت آئی ہے۔ (قاموس قرآن)