آیت 38
 

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، ان کی کرتوت کے بدلے اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

نَکَال:

( ن ک ل ) عبرتناک سزا ۔ اصل میں پاؤں کی بیڑیوں اور لگام کے لوہے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اسلامی نظام حیات جہاں انسان کو جانی تحفظ دینے کے لیے قصاص کی سزا مقرر کرتا ہے، وہاں مالی تحفظ فراہم کرنے کے لیے مناسب اور مؤثر قانون وضع کرتا ہے۔ مال کے تحفظ کے بارے میں اسلام کا یہ مؤقف ہے کہ حُرْمَۃُ مَالِ الْمُسْلِمِ کَحُرْمَۃِ دَمِہِ ۔ (بحار ۲۹: ۴۰۷) ’’مال مسلم کو وہی حرمت حاصل ہے جو خون مسلم کو حاصل ہے۔‘‘ جہاں اسلام احترام آدمیت کی ضمانت فراہم کرتا ہے، وہاں مسلمان کے لیے انفرادی ملکیت کو بھی تحفظ دیتا ہے۔ کیونکہ فرد کی جان و مال کے تحفظ سے ایک پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے اور فرد کی املاک و مال پر تجاوز ہونے کی صورت میں معاشرے کا امن تباہ ہو جاتا ہے۔

ہاتھ کاٹنے کی شرائط: ہاتھ کاٹنے کی سزا کی شرائط پر نظر ڈالیں تو اس سزا کی حکمت و فلسفہ کے سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے:

i۔ قحط۔ بھوک کی مجبوری کی وجہ سے چوری کا ارتکاب کیا ہے تو ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سزا کا مقصد طمع اور لالچ کا ہاتھ کاٹنا ہے۔ کیونکہ اگر یہ چوری مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے نہیں ہے تو طمع اور لالچ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اس کے لیے حل یہ ہے کہ حرص اور طمع کی بنیاد پر دولت کمانے کے ذریعے ہاتھ کو کاٹ کر اس صفت بد پر ضرب کاری لگائی جائے۔

ii۔ محفوظ جگہ سے چوری کی ہو۔ مثلاً گھر دوکان وغیرہ سے۔ جس سے چار دیواری کا تحفظ مجروح ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر گھر کی چار دیواری کے باہر سے چوری کی ہے تو اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

iii۔ چوری کرنے والا عاقل ہو۔ دیوانے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

iv۔ بالغ ہو۔ نابالغ کا ہاتھ نہیں کٹے گا۔ البتہ اس کو مناسب تعزیری سزا دی جائے گی۔

v۔ مال غلط فہمی کی بنا پر نہ اٹھایا گیا ہو۔ اپنا مال تصور کر کے غیر کا مال اٹھایا ہے تو یہ چوری نہیں ہے۔

vi۔ مال مشترکہ نہ ہو۔ اگر مشترکہ مال سے شریک کی اجازت کے بغیر اٹھائے تو سزا نہیں ہو گی۔

vii۔ باپ بیٹے کا مال چوری کرے تو ہاتھ نہیں کٹے گا۔

viii۔ مال کو پوشیدہ طور پر اٹھایا ہو۔ اگر سب کے سامنے یہ جرم کرے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ اس پر چوری صادق نہیں آتی۔ یہ ڈکیتی ہے، اس کی سزا الگ ہے۔

نصاب: جس نصاب پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے وہ فقہ جعفری کے مطابق ایک چوتھائی دینار ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا بھی یہی نظریہ ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ نصاب دس درہم ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لاَ یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ حَتَّی تَبْلُغُ سَرِقَتُہُ رُبُعَ دِیْنَارٍ ۔ (الکافی ۷: ۲۲۱)

چور کا ہاتھ اس وقت تک نہیں کاٹا جائے گا جب تک اس کی چوری ایک چوتھائی دینار تک نہ پہنچے۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تقطع ید السارق فی ربع دینار فصا عداً ۔ (صحیح بخاری باب قول اللّٰہ السارق و السارقۃ)

چور کا ہاتھ ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر کاٹا جائے گا۔

ہاتھ کی حد: آیہ شریفہ میں تو یہ حکم آیا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس سے بظاہر پورا ہاتھ کاٹنا سمجھا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ پورا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

اہل سنت کے نزدیک کلائی سے کاٹا جائے گا۔ مگر امامیہ کے نزدیک چار انگلیاں جڑ سے کاٹی جائیں گی۔ انگوٹھا اور ہتھیلی چھوڑ دی جائے گی۔ اس پر سنت سے استدلال کے علاوہ یہ حکمت منقول ہے کہ ہتھیلی سجدے کے اعضا میں سے ہے۔ وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ (۷۲ جن: ۱۸) ’’سجدے کی جگہیں اللہ کے لیے ہیں۔‘‘ لہٰذا اعضائے سجدہ اللہ کے لیے ہیں۔

کیا ہاتھ کاٹنا ایک غیر مہذب سزا ہے؟: جرائم پر سزا دینا خود اپنی جگہ ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ مجرم پورے معاشرے میں بد امنی پھیلاتا ہے۔ وہ انسانی اقدار کا عملاً احترام نہیں کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے مجرم کو سزا دینا انسانی اقدار کا احیاء ہے۔ لہٰذا جرائم کی روک تھام کے لیے ہر کوشش رحمت ہے۔ اس بد امنی کے خلاف اٹھنے والا ہر قدم امن ہے۔ اس بات پر اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جن اسلامی معاشروں میں ہاتھ کاٹنے کی سزا رائج رہی، وہاں ہاتھ کاٹنے کی نوبت بہت ہی کم آئی ہے۔ یعنی ایسی سزاؤں کے رواج سے جرائم کم ہوتے ہیں۔ نتیجتاً سزائیں بھی کم ہوتی ہیں۔

ایک واقعہ: اصمعی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: میں نے آیت سرقت کی تلاوت میں غلطی سے و اللّٰہ غفور رحیم پڑھ دیا تو ایک عرب بدو نے کہا: یہ کس کا کلام ہے؟ میں نے کہا: اللہ کا۔ کہا: پھر پڑھو۔ میں نے پھر پڑھا: و اللّٰہ غفور رحیم ۔ پھر میں متوجہ ہوا کہ میں غلط پڑھ رہا ہوں اور جب میں نے پڑھا : وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ تو اس نے کہا : اب درست پڑھی۔ میں نے کہا تم نے کیسے سمجھا؟ کہا: اللہ عزیز و حکیم ہے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اگر غفور رحیم کا ذکر ہوتا تو ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ ہوتا۔ اس عرب بدو کو بھی علم ہے کہ اللہ کی حکمت و قہاریت کا تقاضا اور ہے اور مغفرت و رحمت کا تقاضا کچھ اور۔


آیت 38