قانون وصیت


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ حِیۡنَ الۡوَصِیَّۃِ اثۡنٰنِ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ اَوۡ اٰخَرٰنِ مِنۡ غَیۡرِکُمۡ اِنۡ اَنۡتُمۡ ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَاَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ تَحۡبِسُوۡنَہُمَا مِنۡۢ بَعۡدِ الصَّلٰوۃِ فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ لَا نَشۡتَرِیۡ بِہٖ ثَمَنًا وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ۙ وَ لَا نَکۡتُمُ شَہَادَۃَ ۙ اللّٰہِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الۡاٰثِمِیۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔اے ایمان والو ! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو وصیت کرتے وقت گواہی کے لیے تم میں سے دو عادل شخص موجود ہوں یا جب تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت پیش آ رہی ہو تو دوسرے دو(غیر مسلموں)کو گواہ بنا لو، اگر تمہیں ان گواہوں پر شک ہو جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو روک لو کہ وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم گواہی کا کوئی معاوضہ نہیں لیں گے اگرچہ رشتہ داری کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم خدائی شہادت کو چھپائیں گے اگر ایسا کریں تو ہم گناہگاروں میں سے ہو جائیں گے۔

106 تا 108۔ شان نزول:ایک مسلمان دو عیسائیوں کے ہمراہ تجارت کی غرض سے شام گیا۔ مسلمان سفر میں مریض ہو گیا تو اس نے اپنی وصیت میں سامان کی فہرست لکھ کر سامان میں رکھ دی اور دونوں ساتھیوں سے وصیت کی میرا سامان میرے گھر پہنچا دیں۔ چنانچہ جب مسلمان کا انتقال ہوا تو دونوں عیسائیوں نے اپنی پسند کا سامان نکال لیا، باقی گھر پہنچا دیا۔ گھر والوں کو سامان کی فہرست مل گئی جو مال مفقود تھا اس کے بارے میں دریافت کیا تو عیسائیوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ حضور ﷺ کی خدمت میں مسئلہ پیش کیا۔ آپ ﷺ نے نماز عصر کے بعد ان کو بلایا ان سے قسم لی۔ بعد میں وہ مفقود سامان کسی جگہ پایا گیا تو حضور ﷺ کے سامنے مسئلہ دوبارہ پیش کیا گیا تو حضور ﷺ نے مسلمان کے وارثوں سے قسم لی اور ان کے حق میں فیصلہ دیا۔

آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اگر موت کا وقت قریب آجائے تو دو عادل اشخاص کو اپنی وصیت کے لیے گواہ بناؤ، اگر تم حالت سفرمیں ہو اور مسلمان گواہ میسر نہ آئیں تو غیر مسلم اہل کتاب میں سے کسی دو کو گواہ بناؤ۔ اگر میت کے وارثان کو شک ہو جائے تو ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لیا جائے اور ان سے اپنی گواہی کے سچ ہونے پر قسم لی جائے۔ اس طرح فیصلہ کر لیا جائے اور اگر انکشاف ہو جائے کہ ان دونوں گواہوں نے جھوٹ بولا تھا تو ان کی بجائے میت کے قریبی لوگوں میں سے دو گواہ پیش ہوں اور قسم کھا کر کہیں:ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ درست ہے۔

اس قانون میں واقعے تک پہنچنے کے لیے دو ذریعے موجود ہیں: اول یہ کہ شک کی صورت میں خود گواہوں کو قسم کھانا پڑتی ہیں اور قسم غالباً جھوٹ ہونے کی صورت میں نہیں کھاتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وارثان پر قسم آنے کی صورت میں ان دونوں کی گواہی غلط ثابت ہو جائے گی اور ان دونوں کے لیے فضیحت کا باعث بنے گی۔ یہ وہ دو باتیں ہیں جن کی وجہ سے درست گواہی مل سکتی ہے۔

فَاِنۡ عُثِرَ عَلٰۤی اَنَّہُمَا اسۡتَحَقَّاۤ اِثۡمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِیۡنَ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡاَوۡلَیٰنِ فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَہَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنۡ شَہَادَتِہِمَا وَ مَا اعۡتَدَیۡنَاۤ ۫ۖ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔پھر اگر انکشاف ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ کا ارتکاب کیا تھا تو ان کی جگہ دو اور افراد جن کی حق تلفی ہو گئی ہو اور وہ (میت کے) قریبی ہوں کھڑے ہو جائیں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے کوئی تجاوز نہیں کیا، اگر ایسا کریں تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِالشَّہَادَۃِ عَلٰی وَجۡہِہَاۤ اَوۡ یَخَافُوۡۤا اَنۡ تُرَدَّ اَیۡمَانٌۢ بَعۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۱۰۸﴾٪

۱۰۸۔ اس طرح زیادہ امید کی جا سکتی ہے کہ لوگ صحیح شہادت پیش کریں یا اس بات کا خوف کریں کہ ان کی قسموں کے بعد ہماری قسمیں رد کر دی جائیں گی اور اللہ سے ڈرو اور سنو اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔