آیات 106 - 108
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ حِیۡنَ الۡوَصِیَّۃِ اثۡنٰنِ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ اَوۡ اٰخَرٰنِ مِنۡ غَیۡرِکُمۡ اِنۡ اَنۡتُمۡ ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَاَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ تَحۡبِسُوۡنَہُمَا مِنۡۢ بَعۡدِ الصَّلٰوۃِ فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ لَا نَشۡتَرِیۡ بِہٖ ثَمَنًا وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ۙ وَ لَا نَکۡتُمُ شَہَادَۃَ ۙ اللّٰہِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الۡاٰثِمِیۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔اے ایمان والو ! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو وصیت کرتے وقت گواہی کے لیے تم میں سے دو عادل شخص موجود ہوں یا جب تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت پیش آ رہی ہو تو دوسرے دو(غیر مسلموں)کو گواہ بنا لو، اگر تمہیں ان گواہوں پر شک ہو جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو روک لو کہ وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم گواہی کا کوئی معاوضہ نہیں لیں گے اگرچہ رشتہ داری کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم خدائی شہادت کو چھپائیں گے اگر ایسا کریں تو ہم گناہگاروں میں سے ہو جائیں گے۔

فَاِنۡ عُثِرَ عَلٰۤی اَنَّہُمَا اسۡتَحَقَّاۤ اِثۡمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِیۡنَ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡاَوۡلَیٰنِ فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَہَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنۡ شَہَادَتِہِمَا وَ مَا اعۡتَدَیۡنَاۤ ۫ۖ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔پھر اگر انکشاف ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ کا ارتکاب کیا تھا تو ان کی جگہ دو اور افراد جن کی حق تلفی ہو گئی ہو اور وہ (میت کے) قریبی ہوں کھڑے ہو جائیں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے کوئی تجاوز نہیں کیا، اگر ایسا کریں تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِالشَّہَادَۃِ عَلٰی وَجۡہِہَاۤ اَوۡ یَخَافُوۡۤا اَنۡ تُرَدَّ اَیۡمَانٌۢ بَعۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۱۰۸﴾٪

۱۰۸۔ اس طرح زیادہ امید کی جا سکتی ہے کہ لوگ صحیح شہادت پیش کریں یا اس بات کا خوف کریں کہ ان کی قسموں کے بعد ہماری قسمیں رد کر دی جائیں گی اور اللہ سے ڈرو اور سنو اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

شان نزول

ایک مسلمان دو عیسائیوں کے ہمراہ تجارت کی غرض سے شام گیا۔ مسلمان سفر میں مریض ہو گیا تو اس نے اپنی وصیت میں سامان کی فہرست لکھ کر سامان میں رکھ دی اور دونوں ساتھیوں کو وصیت کی میرا سامان میرے گھر پہنچا دیں۔ چنانچہ مسلمان کا انتقال ہوا ۔ دونوں عیسائیوں نے اپنی پسند کا سامان نکال لیا۔ باقی گھر پہنچا دیا۔ گھر والوں کو سامان کی فہرست مل گئی۔ جو مال مفقود تھا، اس کے بارے میں دریافت کیا تو عیسائیوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ حضورؐ کی خدمت میں مسئلہ پیش کیا۔ آپؐ نے نماز عصر کے بعد ان کو بلایا۔ ان سے قسم لی۔ بعد میں وہ مفقود سامان کسی جگہ پایا گیا تو حضورؐ کے سامنے مسئلہ دوبارہ پیش کیا گیا تو حضورؐ نے مسلمان کے وارثوں سے قسم لی اور ان کے حق میں فیصلہ دیا۔

تفسیر آیات

۱۔ شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمۡ: اگر موت کا وقت آ جائے۔ یعنی موت کے آثار ظاہر ہو جائیں تو دو عادل مسلمانوں کو اپنی وصیت کے لیے گواہ بناؤ۔ اس میں وصیت کی ضرورت کا ایک مسلّم کے طور پر ذکر فرمایا۔ مِّنۡکُمۡ سے مراد مسلمانوں میں سے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

۲۔ اَوۡ اٰخَرٰنِ: اگر گواہی کے لیے کوئی مسلم موجود نہیں ہے تو دوسرے دو کو گواہ بنایا جائے۔ دوسرے دو سے مراد اہل کتاب، یہود و نصاریٰ ہیں۔ چونکہ اسلام مشرکین کو کسی شمار میں نہیں رکھتا۔

۳۔ اِنۡ اَنۡتُمۡ ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ: غیر مسلم اہل کتاب کو گواہ بنانا صرف سفر کی حالت میں درست ہے۔

۴۔ تَحۡبِسُوۡنَہُمَا مِنۡۢ بَعۡدِ الصَّلٰوۃِ: اگر وارثوں کو شک گزرے تو ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لیا جائے گا۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کے مطابق نماز سے مراد نماز عصر ہے۔ تو یہ دونوں گواہ قسم کھائیں گے۔ یعنی یہ دونوں غیر مسلم گواہ قسم کھائیں گے۔ واضح رہے کہ گواہ پر قسم نہیں ہے۔ صرف اس وصیت کے گواہوں پر قسم ہے جس پر ان دونوں گواہوں کے علاوہ کوئی اور سند نہ ہو۔ اس صورت میں یہ دونوں جہاں گواہ ہیں، وہاں وہ مدعی بھی بن جاتے ہیں کہ فلانی نے وصیت کی ہے۔ (التبیان)

۵۔ ا نَشۡتَرِیۡ بِہٖ ثَمَنًا: قسم کا یہ مضمون ہونا چاہیے کہ اس گواہی دینے میں کوئی مفاد حاصل نہیں کرنا چاہتے، خواہ یہ گواہی قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہی ہم کسی بات کو چھپاتے ہیں۔

۶۔ فَاِنۡ عُثِرَ: اگر انکشاف ہو جائے کہ دونوں گواہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ اسۡتَحَقَّاۤ اِثۡمًا گناہ کے ارتکاب سے مراد جھوٹی گواہی ہے۔ اس صورت میں فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ مَقَامَہُمَا ، ان کی جگہ دو اور افراد گواہی کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔ مِنَ الَّذِیۡنَ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ ان دو گواہوں کا تعلق ان لوگوں سے ہو کہ پہلے کے دو گواہ جن کا حق مارنا چاہتے تھے۔ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ یعنی اجرم علیہم ۔ جن پر زیادتی کر کے گناہ کے مستحق ہوئے تھے، وہ میت کے رشتہ دار ہیں۔ الۡاَوۡلَیٰنِ یہ دو گواہ میت کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ الۡاَوۡلَیٰنِ یعنی الاولی بالمیت ۔ الۡاَوۡلَیٰنِ بدل ہے فَاٰخَرٰنِ کا اور نحو میں معرفہ، نکرہ کا بدل ہو سکتا ہے۔ بعض کے نزدیک الۡاَوۡلَیٰنِ مبتدا ہے اور فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ خبر ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں گواہوں سے خیانت کے آثار ظاہر ہوئے تو میت کے رشتہ داروں میں سے دو افراد ان کی جگہ آمادہ ہو جائیں گے اور قسم کھائیں گے۔

زجاج نے کہا ہے کہ یہ آیت ترتیب کے اعتبار سے قرآن کی مشکل ترین آیت ہے۔ (المیزان)

۷۔ فَیُقۡسِمٰنِ: یہ دوسرے دو گواہ قسم کھائیں گے اور قسم کا یہ مضمون ہو گا: لَشَہَادَتُنَاۤ اَحَقُّ ہم دونوں کی گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ برحق ہے۔ وَ مَا اعۡتَدَیۡنَاۤ ہم نے یہ گواہی دے کر سابقہ گواہوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی، صرف حق کی بات کی ہے۔

۸۔ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی: مذکورہ یہ طریقہ کار درست شہادت پیش کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ اَوۡ یَخَافُوۡۤا یا گواہی دیتے وقت یہ ڈر سچ بات کرنے کے لیے فائدہ دے گا کہ کہیں ہماری گواہی کے بعد دوسرے لوگ ہمارے گواہی کے خلاف کھڑے نہ ہو جائیں۔

آیات کا مفہوم اور خلاصہ یہ ہے کہ اگر موت کا وقت قریب آ جائے تو دو عادل اشخاص کو اپنی وصیت کے لیے گواہ بناؤ۔ اگر تم حالت سفر میں ہو اور مسلمان گواہ میسر نہ آئیں تو غیر مسلم اہل کتاب میں سے کسی دو کو گواہ بناؤ۔ اگر میت کے وارثوں کو شک ہو جائے تو ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لیا جائے اور ان سے اپنے گواہی کے سچ ہونے پر قسم لی جائے۔ اس طرح فیصلہ کر لیا جائے اور اگر انکشاف ہو جائے کہ ان دونوں گواہوں نے جھوٹ بولا تھا تو ان کی بجائے میت کے قریبی لوگوں میں سے دو گواہ پیش ہوں اور قسم کھا کر کہیں: ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ درست ہے۔

اس قانون میں واقع تک پہنچنے کے لیے دو ذریعے موجود ہیں: اول یہ کہ شک کی صورت میں خود گواہوں کو قسم کھانا پڑتی ہے اور غالباً قسم جھوٹ ہونے کی صورت میں نہیں کھاتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وارثوں پر قسم آنے کی صورت میں ان دونوں کی گواہی غلط ثابت ہو جائے گی اور ان دونوں کے لیے فضیحت کا باعث بنے گی۔ یہ وہ دو باتیں ہیں جن کی وجہ سے درست گواہی مل سکتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ مسلم میسر نہ آنے کی صورت میں اہل کتاب کو گواہ بنانا درست ہے۔

۲۔ قسم کھلانا عدالتوں کے حق تک پہنچ سکنے کا ایک ذریعہ ہے۔

۳۔ گواہی تمام انسانی معاشروں کی ضرورت ہے۔

۴۔ اسلامی معاشرے میں عادل ہی کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

۵۔ عادل، اسلامی معاشرے کی ایک ضرورت ہے۔


آیات 106 - 108